بیلٹ سے پرے: ایک انتخاب جو کینیڈا کی تقدیر بدل دے گا۔خالد خان

جوں جوں کینیڈا اگلے وفاقی انتخابات کے قریب پہنچ رہا ہے، سیاسی منظرنامہ غیر معمولی تغیرات سے گزر رہا ہے۔ ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں معاشی بے یقینی، عوامی اضطراب، اور نظریاتی تقسیم اس کے مستقبل کی سمت متعین کریں گے۔ وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو، جو کبھی ترقی پسند قیادت کی علامت سمجھے جاتے تھے، اب ایک مضبوط اپوزیشن کے نشانے پر ہیں، جو ان کے سیاسی ورثے کو مٹانے کے درپے ہے۔ ان کے سب سے بڑے حریف، کنزرویٹو رہنما پیئر پوئیلیور، عوامی غصے کو مہنگائی، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور سرکاری مداخلت پر عدم اعتماد کے بیانیے میں ڈھال کر طاقت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ انتخاب روایتی سیاسی کشمکش سے کہیں بڑھ کر ہے—یہ کینیڈا کے معاشی مستقبل، سماجی ڈھانچے اور عالمی حیثیت کا تعین کرے گا۔
ٹروڈو کی قیادت میں ماحولیات، امیگریشن، اور سماجی مساوات کے حوالے سے کئی جرات مندانہ پالیسیوں کا نفاذ ہوا، مگر معاشی مشکلات کے پیشِ نظر عوامی اعتماد متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی رہائشی لاگت نے مکان کی خریداری ایک خواب بنا دی ہے، افراطِ زر نے قوتِ خرید کو کمزور کر دیا ہے، اور ایک بڑی تعداد خود کو نظرانداز محسوس کر رہی ہے۔ اگرچہ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کی پالیسیاں عالمی بحران کے باوجود معیشت کو مستحکم رکھے ہوئے ہیں، مگر ناقدین اسے حد سے زیادہ اخراجات اور غیر ضروری ضابطہ بندی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اپوزیشن اس بیانیے کو بنیاد بنا کر ٹروڈو کو حقیقت سے کٹا ہوا رہنما قرار دے رہی ہے، جس کی سیاست اب عام کینیڈین کے مسائل کا احاطہ نہیں کرتی۔ تاہم، ٹروڈو اب بھی ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، اور اگر وہ عوامی توجہ کو معاشی بحران سے ہٹا کر وسیع تر سماجی ترقی اور استحکام کی طرف موڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔
دوسری جانب، پوئیلیور کی قیادت ٹروڈو کی پالیسیوں کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ وہ ایک ایسی حکومت کے داعی ہیں جو معیشت میں کم سے کم مداخلت کرے اور افراد کو زیادہ مالی آزادی فراہم کرے۔ ان کا بیانیہ، جو دوٹوک اور براہِ راست ہے، ان کینیڈین شہریوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے جو خود کو روایتی سیاستدانوں کے ہاتھوں بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ ٹیکسوں میں کمی، قوانین کی نرمی، اور قومی تشخص پر سخت مؤقف ان کے منشور کے بنیادی نکات ہیں۔ وہ عوامی غصے کو سیاسی طاقت میں بدلنے میں مہارت رکھتے ہیں، اور یہی چیز انہیں حالیہ تاریخ کا سب سے مؤثر کنزرویٹو لیڈر بنا رہی ہے۔ تاہم، ان پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ ان کے نظریات تقسیم کو مزید گہرا کر سکتے ہیں اور وہ ایک مربوط حکومتی حکمتِ عملی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ان انتخابات میں صرف لبرلز اور کنزرویٹوز کی کشمکش اہم نہیں ہوگی، بلکہ دیگر پارٹیاں بھی فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔ جگمیت سنگھ کی قیادت میں نیو ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) خود کو ایک ترقی پسند متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے، جو مزدوروں کے حقوق، کارپوریٹ احتساب، اور سماجی بہبود کے فروغ کے لیے سرگرم ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں لبرلز کے ساتھ اس کی قربت نے اس کی الگ شناخت کو دھندلا دیا ہے۔ اسی طرح، کیوبیک میں بلاک کیوبیکوئس اب بھی ایک طاقتور عنصر ہے، جو قوم پرستی اور علاقائی مفادات کی بنیاد پر کئی حلقوں میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔
معاشی مسائل اس انتخابی مہم کا سب سے بڑا محرک ہوں گے، جن میں مہنگائی، روزگار کی صورتحال، اور ٹیکسوں کا بوجھ سرِفہرست ہیں۔ امیگریشن، جو طویل عرصے سے کینیڈا کی پہچان رہی ہے، اب ایک متنازعہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے، کیونکہ گھروں کی قلت اور لیبر مارکیٹ کے چیلنجز اس کی پائیداری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ماحولیاتی پالیسی بھی ایک اہم نکتہ ہے، جہاں لبرلز سخت اقدامات کی وکالت کر رہے ہیں، جبکہ کنزرویٹوز توانائی کی خودمختاری کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر نیٹو میں کینیڈا کے کردار، چین اور امریکہ سے تجارتی تعلقات، اور عالمی تنازعات پر اس کا مؤقف بھی ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
علاقائی سیاست بھی اس انتخاب میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ البرٹا اور ساسکیچیوان جیسے مغربی صوبے روایتی طور پر کنزرویٹو گڑھ رہے ہیں، جہاں وفاقی حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں کے خلاف سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔ اونٹاریو، جو سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، اصل میدانِ جنگ ہوگا، جہاں مضافاتی ووٹرز حکومت کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔ کیوبیک میں لبرلز اور بلاک کیوبیکوئس کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، جبکہ بحرِ اوقیانوس کے صوبے، جو عموماً لبرلز کے حامی رہے ہیں، اس بار سیاسی طور پر غیر یقینی دکھائی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا اس انتخاب میں ایک غیر معمولی کردار ادا کرے گا۔ پوئیلیور کی جارحانہ آن لائن مہم نے انہیں براہِ راست عوام سے جڑنے کا موقع دیا ہے، جبکہ ٹروڈو کو مسلسل مخالفانہ بیانیے اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کا سامنا ہے۔ یہ انتخاب صرف پالیسی اعلانات اور مباحثوں تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ آن لائن عوامی تاثر کی جنگ بھی اس کا اہم جزو ہوگی۔
انتخابی عمل کی شفافیت اور جمہوری اداروں کی ساکھ بھی ایک بڑا امتحان ہوگی۔ سیاسی شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باعث غلط معلومات، انتخابی مداخلت، اور نتائج پر عدم اعتماد جیسے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بیرونی عناصر کے ممکنہ اثر و رسوخ کے پیشِ نظر انتخابی سلامتی کے سخت اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے کسی بھی جماعت کی واضح برتری ظاہر نہیں کر رہے، جس سے اقلیتی حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کو اتحاد اور مفاہمت کی راہ اپنانی پڑے گی۔ اگر ووٹر ٹرن آؤٹ زیادہ ہوا، خاص طور پر نوجوانوں اور نئے ووٹرز میں، تو اس سے لبرلز اور این ڈی پی کو فائدہ ہو سکتا ہے، جبکہ کم ٹرن آؤٹ کنزرویٹوز کی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے۔
یہ انتخاب محض ایک جمہوری مشق نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے، جو آنے والے برسوں تک کینیڈا کی معیشت، سیاست، اور عالمی شناخت کی سمت طے کرے گا۔ کیا عوام تسلسل کو ترجیح دیں گے یا ایک بڑی تبدیلی کے حق میں فیصلہ کریں گے؟ یہ سوال جلد ہی ووٹرز کے فیصلے سے واضح ہو جائے گا۔ دنیا نظریں جمائے دیکھ رہی ہے کہ کینیڈا کے عوام کیسا مستقبل منتخب کرتے ہیں—ایک ایسا مستقبل جو نہ صرف قومی پالیسیوں بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی حیثیت کو متعین کرے گا۔
واپس کریں