دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
’’ ٹرمپ طالبان معاہدہ ‘‘ (Feb 29, 2020 کو لکھا گیا میرا کالم)
احتشام الحق شامی
احتشام الحق شامی
امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہو نے والے معاہدہ کا اصل مرحلہ ان مذاکرات میں طے کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کا ہوگا ۔ طالبان بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ اپنی مجبوری کے تحت انیس سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور اپنی جان چھڑانے کے چکر میں آج مذاکرات کی میز پر بیٹھا اور یہ کہ وہ اس امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی کسی وقت مکر اپنے وعدے سے مکر سکتا ہے کیونکہ امریکہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ طالبان سے غیر رسمی طور پر کئی ایسے معاہدے کر کے توڑ چکا ہے جو ریکارڈ پر موجود ہیں ۔
موجودہ امریکی صدر ٹرمپ تو وعدہ خلافی کرنے اور معاہدے توڑنے کے حوالے سے پہلے ہی شہرت یافتہ ہیں ۔ امریکہ سے تعلقات رکھنے اور اس کے وعدوں کے حوالے سے طالبان نے انیس سالوں میں وہ کچھ بھی سیکھا ہے جو ہم بھی ستّر سولوں میں نہیں سیکھ سکے، اسی لیئے طالبان ضرورت سے زیادہ پر امید یا پرجوش دکھائی نہیں دے رہے ۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ سے کسی قسم کا بھی معاہدہ کرنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو دھوکہ میں ڈالنا ۔ اس حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں کیئے گئے معاہدے، وعدے اور ان کی خلاف ورزیاں کسی سے عیاں نہیں ۔
پاکستان بھی اگرچہ اس امن معاہدے میں ایک فریق ہے اس لیئے یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہم مدد کے طور پر امریکی ساتویں بحری بیڑے کے آنے کا انتظار کرتے رہے ، پاکستان دولخت ہوگیا لیکن وہ ساتواں بحری بیڑہ آج تک نہیں پہنچا ۔ اسی طرح اسی طرح 1979ء میں امریکہ نے پاکستانی حکمرانوں ‘ اہم اداروں ‘ اور دینی جماعتوں کے ذہنوں میں یہ نقش کردیا کہ روس کا ہدف گرم پانیوں تک رسائی ہے وہ افغانستان کے بعد ہر صورت پاکستان پر قبضہ جمائے گا اسی لئے پاکستان کی تمام قوتیں روس کے تعاقب میں افغانستان پہنچ گئیں اور دنیا بھر میں موجود جہاد کے خواہش مند افراد کو پاکستان لاکر تربیت‘ اسلحہ اور ڈالرز دیکر روس سے لڑنے بھیجا جاتا رہا اور امریکی جرنیل پاکستانیوں کو بیوقوف بناتے رہے ۔ ہمارا کندھا استعمال کر کے روس کو شکست سے دوچار کیا اور خود دنیا کی سپر پاور بن بیٹھا، پھر کچھ عرصہ بعد انہی جہادیوں کو دہشت گرد قرار دیا اور اب انہی دہشت گردوں سے امن معاہدہ ہو رہا ہے ۔
ہمارے لیئے تو امریکہ’’ وعدے‘‘ کی ایک تازہ ترین مثال تنازعہِ کشمیر کے حوالے سے بھی موجود ہے کہ امریکہ کے زیر اثر اقوامِ متحدہ کی منظور کی ہوئی کشمیروں کے حقِ رائے دہی سے متعلق ستّر سالہ پرانی قرارداد وں کے باوجود ان پر عمل نہیں ہونے دیا جا رہا جبکہ مشرقی تیمور کی انڈ ونیشیا سے علیحدگی امریکی دباؤ کے باعث جلد ہی ممکن ہوگئی ۔ لکھ رکھیئے،چند ماہ بعد آپ خود سنیں گے کہ امریکہ اپنے’’ امن معاہدے‘‘ پر کیئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد ہونے میں از خود رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے یا پیچھے ہٹ گیا ہے ۔
حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ امریکی صدر اب اس بات کا اعتراف کر بیٹھا ہے کہ امریکی عوام کے ٹیکسوں کے کھربوں ڈالرز کو ایک ایسی جنگ میں جھونکا گیا جس کا زرہ برابر بھی امریکہ کو فائدہ نہیں ہوا اور اسے پارلیمنٹ میں مواخذے کا کھٹکا بھی ہے جبکہ امریکہ کے عام انتخابات میں بھی انہیں افغانستان کے حوالے سے اپنی قوم کو کسی قسم کی پراگراس دکھانا ہو گی ۔ گویا اس امن معاہدے فائدہ براہ راست امریکی صدر تک ہی محدود سمجھا جانا چاہیئے نا کہ امریکی اسٹبلشمنٹ سے ۔ بالفاظ دیگر مذکورہ معاہدے کو’’ ٹرمپ طالبان‘‘ امن معاہدہ کہنا بے جا نہ ہو گا ۔
واپس کریں