احتشام الحق شامی
اِس اسلامی جمہوریہِ پاکستان کا پورا معاشی نظام سود کے ساتھ چل رہا ہے، عدالتیں برٹش لاء کے تحت فیصلے دے رہی ہیں لیکن یہ ملک بدستور اسلامی ریاست اور اسلام کا قلعہ قرار ہے۔ اس ملک کی غلام اور محکوم قوم کو طعنے دیئے جاتے رہے ہیں کہ یہ قوم ٹیکس نہیں دیتی، حالانکہ برتھ سر ٹیفیکیٹ،ڈیتھ سرٹیفیکیٹ،قبرستان کی فیس اور پھر ماچس کی ڈبیا اور بھاری ٹیکسوں پر مبنی بجلی و گیس کے بلات سے لے کر ماسوائے ہوا میں سانس لینے تک اس ملک کا ہر شہری بلواسطہ اور بلا واسطہ ہر شے پر مسلسل ٹیکس بلکہ بھاری ٹیکس ادا کر تا چلا آ رہا ہے، انصاف چونکہ سرِ عام فروخت ہوتا ہے اسی لیئے یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اپنے شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے اس ملک کا تقریباً آخری نمبر ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کی پیشانی آیت درج ہے۔یدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ ”ہم نے کہا اے داؤد علیہ السلام، ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے‘ لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو“ لیکن اس دنیا اور مذکورہ آیت نازل کرنے والے نے دیکھا کہ کس طرح ڈھٹائی اور بد نیتی کے ساتھ اس عمارت کے اندر بار بار آئین کے ساتھ بدترین کھلواڑ ہوتا رہا اور فیصلے اشٹبلشمنٹ کی پسند و نا پسند کی بنیاد پر ہوتے رہے ہیں۔
یہی وہ نرالا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ اخراجات سیکورٹی کے نام پر ہوتے ہیں مگر محفوظ کوئی شہری نہیں اور سب سے زیادہ تنخواہیں و مراعات ججوں کی ہیں مگر انصاف کوئی نہیں اور اگر ملتا بھی ہے تو لمبے عرصہ یا پھر مرنے کے بعد۔
اس ملک کی پارلیمنٹ بالا دست ادارہ ہے، جبکہ کھلی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی سو کالڈ پارلیمنٹ کی مثال اس وقت کسی منڈی سے کم نہیں رہ گئی جہاں بولیاں لگتی ہیں اور غیر سیاسی قوتوں یعنی اشٹبلشمنٹ کی ہدایات پر قانون سازی عمل میں لائی جاتی ہے۔ عدالتوں اور تھانوں سمیت اس ملک کا کون سے ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں رشوت اور سفارش نہیں چلتی اوراسکولوں اور کالجوں میں قومی ترانے کے بعد معصوم طلبہ و طالبات کو اس ملک کے حوالے سے غلط تاریخ پڑھائی جا رہی ہے اور توقع ہے کہ ہمارے ملک سے سائینس دان اور نوبل انعام لینے والے دانشور پیدا ہوں۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ”قومیں بموں سے تباہ نہیں ہوتیں جاپان ثابت کر چکا ہے،قومیں جھوٹ،کرپشن اور نا انصافی سے تباہ ہوتی ہیں یہ پاکستان ثابت کر چکا ہے۔
منٹو نے کیا خوب کہا تھا کہ
اپنے بارے اپنے بارے میں کسی پیر سے پوچھو نہ کسی فقیر سے
بس تھوڑی دیر آنکھیں بند کر کے اپنے ضمیر سے پوچھو
واپس کریں