احتشام الحق شامی
رواں سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران مجموعی ملکی اور بیرونی قرضوں میں 6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ قرضہ جون 2023 میں 60.481 ٹریلین روپے سے بڑھ کر جنوری 2024 میں 64.842 ٹریلین روپے ہو گیا یعنی 4 کھرب روپے کا اضافہ۔ باالفاظِ دیگر جون 2023 میں 38.3 ٹریلین روپے سے جنوری 2024 کے آخر میں 42.62 ٹریلین روپے یعنی 3.8 ٹریلین روپے کا اضافہ۔
یہ بھاری بھرکم بلکہ تاریخی غیر ملکی سودی قرضہ اتارنے کی ذمہ داری یقینا اب موجودہ حکمرانوں کی ہی ہو گی جو اپنی سیاست بچانے کے بجائے ریاست کو بچانے کے لیئے میدانِ عمل میں اترے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈھیر سارا قرضہ یکدم نہیں اترے گا بلکہ اسے اتارنے کے لیئے کم از کم تین سے چار سال درکار ہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ غیر ترقیاتی اخراجات کم سے کم کیئے جائیں اور بائیس کروڑ عوام پر بجلی،پٹرول اور گیس وغیرہ مذید مہنگی کر کے مذید ٹیکس نافذ کیئے جائیں۔
اس صورتِ حال میں عوام کو کسی قسم کا کوئی بڑا ریلیف ملنا ممکن نظر نہیں آتا،بلکہ ابھی تو حال ہی میں آئی ایم ایف نے اٹھارہ اشیاء پر مذید ٹیکس لگانے کا حکم صادر کیا ہے،جس پر من و عن عمل کیا جائے گا جبکہ اس وقت سب سے بڑا مسعلہ ہی عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینا ہے۔
پیچھے جہاں صرف شہروں میں ناجائز تجاوزات کا خاتمہ،صفائی ستھرائی اور یوتھیوں کی ٹھکائی ہی رہ جاتی ہے جس پرہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے وہاں اگر شہروں کی سڑکوں کے بجائے، ہر قسم کے سیاسی و مذہبی احتجاج کے لیئے آبادی سے ہٹ کر گراونڈز وغیرہ مختص کر دیئے جائیں تو عام شہریوں سڑکوں پر زلیل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ہمیں موجودہ مسکڈ اچار پارلیمنٹ سے کسی قسم کی اہم قانون سازی کی تو کوئی امید نہیں البتہ اگر اس ضمن میں قانون سازی کر دی جائے تو شہروں اور نجی و سرکاری املاک کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
واپس کریں