احتشام الحق شامی
دوا ساز کمپنی کا نام نسخہ پر لکھنا غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔1970 کی دہائی کے اوائل میں، ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس میں (Brand)برانڈ نام کے تحت کسی بھی دوائی کی تیاری اور درآمد پر پابندی تھی۔ بدقسمتی سے، یکے بعد دیگرے آنے والی آمرانہ اور عوامی حکومتیں مذکورہ قانون کو فعال رکھنے میں ناکام رہیں، اور عام آدمی کو نقصان اٹھانا پڑا۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی(ڈریپ)نے اپریل2021 کو ڈاکٹرز کو ادویات کے نسخے میں دوائی کا برانڈ اور نام لکھنے سے منع کر دیا گیاتھا۔ڈریپ کی جانب سے ڈاکٹرز کو مراسلہ ارسال کیا گیا جس میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ ڈاکٹرز ادویات کے نسخے میں صرف دوائی کا فارمولا لکھیں گے۔ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ نجی اور سرکاری سطح پر ڈاکٹرز بااثر میڈیسن کمپنیوں کا مہنگا نسخہ لکھ دیتے ہیں، برانڈ کا نام لکھنے سے مریض مہنگی ادویات خرید لیتے ہیں، جس سے عام مریض پر بوجھ پڑ جاتا ہے، ڈاکٹرز ادویات کے برانڈ کے نام کی بجائے سالٹ لکھیں گے۔
مراسلے میں واضع طور پر کہا گیا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ڈاکٹرز کو صرف ادویات کا فارمولا لکھنے کی اجازت ہو گی، کمپنی کا نام نسخہ پر لکھنا غیر قانونی قرار دیدیا گیا ہے۔ڈریپ نے ہدایت کی کہ ڈاکٹرز ادویات کے برینڈ کے نام کی بجائے سالٹ لکھیں گے اور انہیں صرف ادویات کا فارمولا لکھنے کی اجازت ہوگی، نسخے پر کسی بھی کمپنی یا اُس کی دوا کا نام لکھنا غیر قانونی اقدام میں شمار کیا جائے گا۔
ملکِ پاکستان میں سرکاری قومی سطح پر جاری لوٹ مار کے طوفان میں سوچا بے حس اور غیرت سے عاری حکمرانوں کو ایک قانون یاد کروا دوں۔
واپس کریں