احتشام الحق شامی
ایک دوست اپنے مرحوم والد کے ترکہ میں رہ جانے والی(موروثی) جائیداد کی قانونی تقسیم کروا کر اپنے بہن بھائیوں میں تقسیم کروانا چاہتے ہیں۔ پوچھا ہے جائیداد کی تقسیم کے عمل میں کتنا وقت اور پیسہ خرچ ہو گا اور ان کے بقول وہ کتنے عرصے تک زلیل وخوار ہوتے رہیں گے؟۔خاکسار وکیل نہیں لیکن چونکہ خواہ مخواہ کے اس پیچیدہ عمل سے آج کل گزر رہا ہے اس لیئے دستیاب معلومات کی بنیاد پر دوست کی خدمت میں عرضِ پرواز ہے کہ انہیں اس نیک اور قانونی کام کے سلسلے میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مشکلات پیش آئیں گی۔
ایف آر سی،وراثت نامہ،زمین یا جائیداد کی نقول،ڈیتھ سرٹیفیکیٹ، اگر کوئی وارث ملک سے باہر ہے تو اس کا پاور آف اٹارنی، مختلف عدالتی حکم نامے، جائیداد کے وارثان کے نام منتقلی یعنی ٹائیٹل کی تبدیلی، خاندان کی فیملی ٹری،وغیرہ اور مذکورہ کاغذات کے حصول اورتیاری میں صحت کا ستیاناس، وقت اور بھاری بھرکم اخراجات۔
کچھ عرصہ قبل خاکسار کے دو قریبی عزیز انتقال کر گئے،دونوں ریٹائرڈ سرکاری افسر تھے۔صرف ان کی پنشن کی ان کی بیواوں کو منتقلی میں آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ لگ گیا وہ بھی بھاگ دوڑ اور سفارشیں کروا کر۔
کچھ عرصہ قبل میرے ایک جاننے والے جو برطانیہ کے شہر لیوٹن میں مقیم تھے انتقال کر گئے،برطانیہ کے شہریت رکھتے تھے اور اچھی خاصی جائیداد کے مالک بھی تھے۔ان کے انتقال کے محض ایک ہفتے کے اندر اندر ہی لیوٹن شہر کی انتظامیہ کے اہلکاروں نے ان کے گھر آ کر ورثاء میں تقسیمِ جائیداد کے کاغذات پیش کر دیئے اور مرحوم کے لیئے اظہارِ تعزیت بھی کیا۔
حاصل کلام کہ جب تمام معلومات و ڈیٹا نادرا میں دستیاب ہے تو نادرہ کی جانب سے کسی شہری کے انتقال کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے ساتھ ہی وارثان کو جائیداد کی منتقلی کے عمل کو کیوں نہیں ممکن بنایا جاتا؟ آئی ٹی کے اس جدید دور میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور ہماری قوم جائیددادوں کی خرید و فروخت اور منتقلی کے سلسلے میں ابھی تک پٹوار خانوں اور تحصیل داروں کے دفتروں کے چکر کاٹ رہی ہے۔
پاکستان آسان نہیں بلخصوص جائز اور میرٹ پر کوئی بھی کام کروانے کے سلسلے میں البتہ کوئی الٹا،ناجائز اور غیر قانونی کام کروانا آسان ہے۔
واپس کریں