احتشام الحق شامی
بلاول بھٹو کا فرمان ہے کہ دو تہائی اکثریت والے کہتے ہیں کہ ہماری بات ہوگئی ہے، اگر الیکشن سے پہلے ہی نتائج طے کرنے ہیں تو الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں، ایک وزیراعظم بنے گا تو دوسرا دھاندلی کا الزام لگا کر دھرنے شروع کردے گا۔عرض کیا ہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ہونے والے سینیٹ الیکشن، اس سے قبل بلوچستان کے صوبائی الیکشن اور موجودہ صدرعارف علوی کے انتخاب پر قومی اسمبلی سے پی پی پی کی سہولت کاری والی غیر حاضری پھر کیا ڈرامہ تھا؟
جنابِ عالی شائد آپ کے علم میں نہیں کہ آپ کے والد صاحب کی بات اس وقت کے بڑوں سے طے ہو گئی تھی، اُس وقت کے نتائج بھی پہلے سے طے تھے لیکن سینٹ اور بلوچستان اسمبلی کے الیکشن کروا دیئے گئے تھے اور اس پر دھاندلی کے الزام بھی لگے تھے لیکن دو تہائی اکثریت والوں کو سب کچھ ہضم کرنا پڑا تھا،اب پھر دوبارہ اگر کچھ ایسا ویسا ہوا بھی تو آپ کو اپنا ہاضمہ درست رکھنا ہو گا۔وقت پلٹ کر آتا ہے۔
ویسے دھاندلی کے الزام تو پی ٹی آئی پر آپ نے بھی لگائے تھے اور خان کو اسمبلی میں کھڑے ہو کر سلیکٹڈ تک کہ دیا تھا لیکن کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگی تھی۔ ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ کی پی پی پی اگر سندھ میں دوبارہ اقتدار چاہتی ہے تو پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد کر لے جو ویسے بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
کیا کہتے ہیں کی سیاست بے رحم کھیل ہے،واپس مڑ کر آتا ہے اور اپنا آپ بتاتا ہے۔ خان کو سب سے پہلے آپ ہی نے سلیکڈڈ کہا تھا اب الیکڈڈ کہ دیجئے گا کیوں کہ پاکستانی سیاست میں کوئی حرفِ آخر نہیں۔
باقی اگر آپ کو دو ماہ بعد پی پی پی کا سیاسی مستقبل خطرے میں جاتا دکھائی دے رہا ہے تو پھر ابھی سے الیکشن میں دھاندلی کے الزام لگا کر دھرنے شروع کرنے کی تیاری کیجئے، کیونکہ پھر اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہو گا۔
واپس کریں