احتشام الحق شامی
اب پھر کہ رہے ہیں کہ”سخت فیصلے کرنے پڑیں گے“ اب پتہ نہیں یہ والے سخت فیصلے کون سے اور کیسے ہوں گے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس لاچار قوم پر سخت فیصلے گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں سے مسلسل مسلط ہو رہے ہیں۔ لیکن سوال پھر وہی کہ یہ”سخت فیصلے“ حکمران اشرافیہ اپنے اوپر لاگو کیوں نہیں کرتی؟ کیا یہ جو بار بار سخت فیصلے ہوتے ہیں یہ صرف اس ملک کے چوبیس کروڑ عوام کے لئے ہی ہیں، اس ملک پر مسلط طبقہ کے لیئے نہیں؟ کیا یہ حکمران طبقہ اپنے آپ کو کوئی علیحدہ مخلوق سمجھتا ہے؟ کیا اس ملک پر مسلط حکمرانوں کا کام از خود قصائی بننا اور سخت فیصلوں کے نام پر عوام کو قربانی کا بکرا بنانا ہی رہ گیا ہے۔
حیرانگی تب بھی ہوتی ہے کہ جب قومی میڈیا پر بیٹھے دانشور حکمران الیٹ سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرتے یہ سخت فیصلوں کی شروعات وہ اپنے آپ سے کیوں نہیں کرتے؟ کابینہ کا سائز کم کیوں نہیں کرتے؟ اپنے اللے، تللے، سرکاری عیاشیوں اور بھاری بھرکم مراعات کو کم از کم ہی کیوں نہیں کر لیتے؟
یہ شائد دنیا کا وہ انوکھا ملک ہے جہاں غریب عوام کو ریلف دینے کے بجائے بار بار مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام کو ہی قربانی دینے کے کا بکرا بننے کا کہا جاتا ہے اور عوام پر ہی”سخت فیصلے“ مسلط کیئے جاتے ہیں۔
دنیا کی ایک بڑی اور ابھرتی ہوئی معیشت ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جہاں ان کے آرمی چیف،وزیر،جج اور سرکاری افسران چھوٹی لوکل میڈ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں اور کئی کئی کنالوں پر محیط گھروں کے بجائے چند مرلوں کے سرکاری گھروں میں رہتے ہیں۔ہمارے فیصلہ ساز اُن سے کچھ کیوں نہیں سیکھتے؟
اگر پاکستانی حکمران اشرافیہ کا پروٹوکول ہی ملاحظہ کیا جائے تو یہ ملک ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست نظر آئے گا جب کہ اوقات یہ ہے کہ بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے بھی سود پر قرض لینا پڑ رہا ہے۔
واپس کریں