احتشام الحق شامی
قائداعظم کی اسرائیل کے معاملے پر رائے سے اختلاف 'کفر' نہیں: نگران وزیراعظم۔ محدود مینڈیٹ کے حامل ہمارے نگران وزیر اعظم صاحب اسرائیل کی دلالی کرتے ہوئے سیدھا سیدھا یہ فرما رہے ہیں کہ پاکستانی اشٹبلشمنٹ جلد ہی بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی اور اسرائیل قبول کر لے گی۔ ان صاحب کو کو علم ہونا چاہیے کہ پھر ہمیں کشمیر کے معاملہ میں بھی یہی موقف اپنانا پڑے گا کیونکہ دونوں مقبوضہ علاقے ہیں۔ ان وزیر اعظم کو کوئی بتا ئے اسرائیل کی بات کرنا یا کشمیر سے دستبردار ہونا ایک ہی بات ہے۔انہیں کوئی یہ بھی بتائے کہ کاکڑ جی ریاست صرف فلسطین ہے اسرائیل ریاست نہیں بلکہ ایک قابض ہے اور کیا کشمیر کا حل بھی دو ریاستی مسئلہ ہے؟
دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہماری اشٹبلشمنٹ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پہلے سے ہی بے تاب اور کوشش کر رہی ہے۔یاد رکھیئے گا کہ پاکستان میں خفیہ کال ریکارڈنگ کہ سوفٹ ویئر اسرائیل ہی فراہم کرتا ہے اور سابق آمر پرویز مشرف نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ یہ نگران وزیراعظم صاحب کا تعلق بھی اسی پرویز مشرف کے نظریات سے ہے۔
اس مرتبہ ہمارا پالا ایک ایسے کٹھ پتلی نگران وزیرِ اعظم سے پڑا ہے کہ اگر خدانخواستہ کل اگر کوئی دشمن ملک خدداد پر قبضے کے کوشش کرے تو پھر بھی ان کا یہی بیان اور سوچ ہو گی۔دو ریاستی حل کی باتیں اشٹبلشمنٹ کی خواہش ہے جسے وقفے وقفے کے بعد عمل جامہ پہنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔آج کہہ دیا کہ قائدِ اعظم کا اسرائیل کا موقف غلط تھا، یہی نمونے کل یہ کہنے میں بھی شرم محسوس نہیں کریں گے کہ دو قومی نظریہ بھی غلط تھا اور پاکستان کی آزادی بھی غلط تھی۔
کمپنی سرکار کونسی اپنی مینو فیچرنگ کمپنی سے ایسے سپیشل پیس اکثر تیار کرواتی ہے اور پھر حصے میں رسوائی ہی رسوائی۔ ”فوج عوام کی سرونٹ ہے“یہ الفاظ کہنے پر قائد اعظم کو اسی کمپنی نے زیارت میں نظر بند کر دیا تھا۔
واپس کریں