احتشام الحق شامی
عمران نیازی یا پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے کئی مرتبہ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں، دوسری سیاسی جماعتیں چھوڑ کر پی ٹی آئی کا پٹہ اپنے گلے میں لٹکایا اور عمران نیازی کو چھوڑنے میں بھی سب سے پہلے پہل کی۔ ایسے سیاسی فصلی بٹیروں کو عرفِ عام میں الیکٹیبلز یا لوٹے بھی کہا جاتا ہے اور در حقیقت یہ لوگ مختلف ایجنسیوں کے پے رول پر ہوتے ہیں، مختلف اوقات میں اپنے مالکان کے احکامات کی بجا آوری کرنے میں زرا تامل نہیں کرتے اور بہ وقتِ ضرورت حکومت کو ڈاما ڈول کرنا یا سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ان کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن نے اسلام آباد (این اے 47) کے تین قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے ایک کو سابق وزیر صحت اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی کے لیے خالی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے،اس عمل کو ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“کا نام دیا گیا ہے اسی طرح راولپنڈی ڈویژن میں ٹیکسلا کے حلقہ این اے 54 پر پی ٹی آئی حکومت کے ایک اور سابق وزیر چوہدری غلام سرور کے ساتھ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ ہو گئی ہے۔
یہ تو محض دو مثالیں پیش ہیں جبکہ راولپنڈی سمیت پنجاب بھر کے کئی اضلاع میں بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ کے نام پر سیاسی ڈیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے جہاں ن لیگ کے پرانے اور تجربہ کار امیدواروں سے ٹکٹ واپس لے کر یا انہیں نظر انداز کر کے سیاسی و فصلی بٹیروں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔
نظر انداز کیئے جانے ن لیگی امیدوار یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ن لیگی ٹکٹوں کی تقسیم میں پراپرٹی مافیا اثر انداز ہو رہا ہے جو ن لیگ میں موجود ٹھیکیدار گروپ کو پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے دے کر اپنے اپنے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دلوا رہا ہے اور پارٹی میں متاثرینِ ٹکٹ کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔
میاں نواز شریف صاحب سے زیادہ”سسٹم“ سے کون واقف ہو گا، پھر انہیں اس ضمن میں محتاط رہنے کی ضرورت کیوں پیش نہیں آ رہی؟ ایک مرتبہ مریم نواز شریف نے انٹرویو میں کہا تھا کہ میاں صاحب سے سیاسی غلطیاں نہیں بلکہ بلنڈرز ہوئے ہیں۔لگتا ہے میاں صاحب کے بلنڈرز کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
واپس کریں