دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عظیم کافرستان کی معدوم ہوتی بازگشت: ایک کھویا ہوا عہد، ایک مٹتی ہوئی شناخت۔خالد خان
No image ہندوکش کے کہر آلود درّوں اور فلک بوس چوٹیوں کے سائے میں، جہاں وقت اکثر تھم سا جاتا ہے، ایک ایسی سرزمین کی بھولی بسری داستان دفن ہے جسے کبھی عظیم کافرستان کہا جاتا تھا۔ آج، اس کی بازگشت محض سرگوشیوں میں باقی ہے—ان چند بکھری ہوئی بستیوں میں، جہاں ایک قدیم قوم کے عقائد، زبانیں اور طرزِ حیات صدیوں کی یلغار، جبری تبدیلیِ مذہب اور تہذیبی تحلیل کی نذر ہو چکے ہیں۔
عظیم کافرستان کوئی مستقل جغرافیائی وحدت نہ تھا، بلکہ اس کی سرحدیں وقت، مزاحمت اور فتوحات کے ساتھ بدلتی رہیں۔ اپنے عروج پر، یہ سرسبز وادیِ کشمیر سے لے کر کاپیسا کے سنگلاخ میدانوں تک، پشاور کے تجارتی راستوں سے لے کر واخان کے برف پوش پہاڑوں تک پھیلا ہوا تھا۔ مگر دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی سے شروع ہونے والی مذہبی جنگوں نے اس خطے کو بتدریج سمیٹنا شروع کر دیا۔ ایرانی اور افغان حملہ آوروں کے ہاتھوں، ایک ایک کر کے، کافرستان کے علاقے تحلیل ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ محض موجودہ نورستان اور جنوبی چترال کی کالاش وادیوں تک محدود رہ گیا۔ 1895 میں امیرِ افغانستان، عبدالرحمن خان، نے اپنی بے رحم عسکری یلغار کے ذریعے اس آخری پناہ گاہ کو بھی روند ڈالا، مقامی آبادی کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا اور اس سرزمین کو اپنے اقتدار میں ضم کر لیا۔ آج، اس عظیم ورثے کی باقیات صرف کالاش کی تنہا وادیوں میں ایک مدھم عکس کی مانند باقی ہیں—جہاں کبھی ایک شاندار تہذیب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سانس لیتی تھی۔
نورستان اور کافرستان وہ نام ہیں جو فاتحین نے اپنی عسکری مہمات کو جواز بخشنے کے لیے گھڑے۔ درحقیقت، یہ خطہ عظیم بلورستان اور داردستان کے نام سے جانا جاتا تھا، جن کا ذکر سنسکرت تصنیفات میں دارد دیس اور عربی تواریخ میں بلورستان کے طور پر ملتا ہے۔ "کافرستان" کی اصطلاح نوآبادیاتی عہد کی پیداوار تھی، جسے حملہ آوروں نے مذہب کے نام پر جنگوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا۔ ان جنگوں کا مقصد محض زمینوں پر قبضہ نہ تھا، بلکہ یہ تہذیبوں کے مکمل استحصال پر منتج ہوئیں۔ گندھارا اور ادھیانہ کے باسی صدیوں تک حملہ آوروں کے ہاتھوں پسپائی اختیار کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ ان پہاڑوں کی گود میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
وایگل، جو آج بھی کالاشا الا بولنے والوں کا مرکز ہے، ہمیشہ سے ان کا مسکن نہ تھا۔ اس سے قبل یہاں گوار قوم آباد تھی، جس کی موجودگی کنڑ، ارندو اور دوکلام سے لے کر چترال اور دیر بالا تک پھیلی ہوئی تھی۔ بعد ازاں، جب کالاشا الا جنہیں ان کے مخصوص سیاہ لباس کی وجہ سے "کالے کافر" کہا جاتا تھا، اس خطے میں وارد ہوئے، تو انہوں نے مقامی گوار بولنے والے قبائل کو بے دخل کر دیا۔ یہی بے دخلی اور مہاجرت کا سلسلہ تھا جس نے وقت کے ساتھ یہاں کی آبادیاتی ساخت کو بدل کر رکھ دیا۔ آج بھی، گوار بولنے والے افراد گوری، گوار بتی اور گبر کے نام سے سوات، دیر، دریائے اباسین کی وادیوں، چترال اور کنڑ میں ملتے ہیں۔
یہی کہانی دیگر نورستانی گروہوں کی بھی ہے، جو خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کبھی باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ تاریخی حوالہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کالاشا الا کا دائرۂ اثر واخان تک پھیلا ہوا تھا، اور چودہویں صدی تک وہ چترال پر باقاعدہ حملے بھی کرتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پراسرار لوگ آج کے نورستان سے کہیں وسیع تر خطے میں پھیلے ہوئے تھے۔
بلورستان اور داردستان کی قدیم بستیاں، جن میں سوات، دیر اور کنڑ کے علاقے شامل ہیں، اپنی مخصوص طرزِ تعمیر کی بدولت نمایاں تھیں۔ یہ بستیاں کھلے میدانوں میں بسنے کے بجائے دشوار گزار پہاڑی ڈھلوانوں پر تعمیر کی جاتی تھیں، جہاں دشمن کی رسائی مشکل ہوتی۔ ان کے عقبی حصے فلک بوس چٹانوں سے محفوظ ہوتے، جبکہ سامنے کی سمت دریاؤں اور ندیوں کے قدرتی دفاعی حصار سے گھری ہوتی۔ ان کی یہ مخصوص طرزِ بود و باش اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ حملوں کے خوف میں جیتے رہے اور ان کی بستیاں آخری مزاحمت گاہوں کے طور پر کام کرتی رہیں۔ حتیٰ کہ بیسویں صدی کے اوائل تک، پنجکوڑہ کے بالائی علاقوں میں ایسی بستیاں دیکھی جا سکتی تھیں، جہاں گھر پہاڑی ڈھلوانوں پر بنائے جاتے اور ان کی چھتیں اوپر کے گھروں کے صحن کے طور پر استعمال ہوتی تھیں—یہ سب اس امر کی گواہی تھی کہ یہاں بقا کے لیے زمین کے قدرتی خدوخال کو اپنانا ناگزیر تھا۔
عظیم کافرستان، جو کبھی متنوع زبانوں، عقائد اور ثقافتوں کا امین تھا، آج ماضی کا ایک مدھم عکس بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے باسیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا، ان کی زبانوں کو معدوم کر دیا گیا، اور ان کے ثقافتی ورثے کو فراموشی کے سپرد کر دیا گیا۔ مگر یہ کہانی صرف ایک گمشدہ قوم کی نہیں، بلکہ انسانی تہذیب کی ناپائیداری کی بھی ہے—جب تاریخ کے بے رحم دھارے، اقتدار کی ہوس، اور مذہبی جنونیت کسی شناخت کو مٹانے پر آ جائیں، تو چند صدیوں میں ہی ایک شاندار تمدن محض ایک قصہ بن کر رہ جاتا ہے۔
آج، کالاش کے لوگ اس کھوئے ہوئے عہد کے آخری محافظ ہیں۔ وہ ایک معدوم ہوتے ثقافتی ورثے کے چراغ کو، خواہ کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں، روشن رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ تاریخ صرف فاتحین کی نہیں ہوتی—بلکہ وہ اقوام بھی اس کے ماتھے کا جھومر بنتی ہیں، جو وقت کے تھپیڑوں کے باوجود اپنی شناخت کی آخری کرنوں کو سنبھالے کھڑی رہتی ہیں۔
واپس کریں