دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انسان زیادہ مطمئن ہیں یا جانور؟
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
جس طرح بعض خواتین کو مردانہ ریسلنگ کے چینل پسند ہیں اسی طرح مجھے نیشنل جیوگرافک پسند ہے، یہ چینل آپ جب بھی، جہاں سے بھی دیکھنا شروع کریں گے، اِس بات کی ضمانت ہے کہ بور نہیں ہوں گے۔ اِس چینل کے پروگرام دیکھتے ہوئے میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ جنگل میں جانور خواہ مخواہ ایک دوسرے سے نہیں لڑتے، اگر اُن کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور انہوں نے شکار کے بعد سیر ہو کر کھا لیا ہے تو وہ کسی درخت کے سائے میں سستائے ہوئے پائے جائیں گے، نیم وا آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھیں گے، جمائیاں لیں گے، یا زیادہ سے زیادہ اپنی مادہ کو تنگ کریں گے۔ نہ انہوں نے کسی دفتر میں جا کر حاضری لگانی ہے اور نہ مائیکروسافٹ ایکسل پر کام کرنا ہے۔ ممکن ہے جانوروں کی کوئی قسم ایسی ہو جسے کھا پی کر بھی چین نہ آتا ہو اور وہ بلاوجہ دیگر جانوروں کی زندگی اجیرن بنانے میں لطف کشید کرتی ہو، فی الحال سوائے انسان کے ایسا کوئی جانور میرے ذہن میں نہیں آ رہا۔ دو سال پہلے کینیا کے ایک چھوٹے سے جنگل میں جانے کا موقع ملا تھا، ویسا نہیں جو نیشنل جیوگرافک میں دکھایا جاتا ہے، بس اُس کا ساشے پیک سمجھ لیں، شیر، چیتے، گینڈے وغیرہ اُس میں بھی تھے، سیاحوں کی جیپیں جب شیروں کے پاس رُکتی تھیں تو وہ نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے، خراماں خراماں چلتے رہتے تھے، لیکن یہ مستی بھرے ہوئے پیٹ کی مرہونِ مِنّت تھی، اگر شیر خالی پیٹ ہوتا تو کوئی مائی کا لعل اُس کے قریب جانے کی ہمت نہ کرتا۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ انسانوں کے برعکس جانور اپنی زندگیوں میں زیادہ مطمئن ہیں، یا کم از کم وہ انسانوں کی طرح بے چین، مُضطرِب اور جاہ طلب نہیں ہوتے۔ جانوروں کو اگر دھوپ، سایہ، پانی اور خوراک میسر آ جائے تو وہ مزید سے مزید تر کی جستجو میں مارے مارے نہیں پھرتے اور انسانوں کی طرح اپنی زندگیوں کو اجیرن نہیں بناتے۔ یہ انسان ہی ہے جو کبھی چین نہیں لیتا، آپ اسے ایک نیویارک کے سب سے مہنگے پینٹ ہاؤس میں بند کر دیں اور وہاں اُس کی ضرورت کی تمام چیزیں رکھ دیں، تھوڑی دیر بعد ہی وہ بور ہو کر وہاں سے نکل آئے گا اور اپنے لیے کوئی نئی دلچسپی تلاش کرنے کے بارے میں سوچے گا۔ جس طرح جانور جنگل کے آئیڈیل ماحول میں اطمینان سے رہ سکتے ہیں، انسان اِن کی طرح نہیں ٹِک سکتا، اسے ہر پَل کوئی نئی چیز چاہیے، کوئی نئی سرگرمی، کوئی نیا مسئلہ، کوئی نیا جھگڑا۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ایک دشمن چاہیے بالکل اُسی طرح جیسے فلم مولا جٹ میں نوری نت دشمن کی تلاش میں پورے پنجاب میں مارا مارا پھرتا تھا۔ جب ہماری زندگی میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تو ہم خود مسئلہ بنا لیتے ہیں، اور اتنے عجیب ہیں کہ خود کو تباہ کر لیتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کے بارے میں نطشے نے Beyond Good and Evil میں کہا تھا ’’In times of peace, warlike man attacks himself۔‘‘ (انسان جب پُرسکون ہوتا ہے تو اپنے آپ سے برسرِ پیکار ہو جاتا ہے)۔ یعنی جب انسان کو خارجی تنازعات یا چیلنجز کا سامنا نہیں ہوتا تو وہ اکثر اپنے ہی خلاف نبردآزما ہو جاتا ہے اور اپنے جذبات، جَبِلّتوں اور تضادات کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔
کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے ستّر ہزار سال پہلے جب انسانی ذہن نے جست لگائی اور دیگر مخلوقات کو پیچھے چھوڑ کر اپنی عقل کی بنیاد پر اُن سے آگے نکل گیا تو اُس کے بعد ہومو سیپئنز کے ذہنی اضطراب میں اضافہ ہوا۔ رہی سہی کسر زرعی انقلاب اور بعد ازاں صنعتی انقلاب نے پوری کر دی جس کے بعد انسان کی آزادی، مسرت اور آسودگی کے معنی ہی بدل کے رہ گئے۔ دو لاکھ سال پہلے غار میں رہنے والے انسان کو خونخوار جانوروں سے خطرہ ہوتا تھا، آج کل کے انسان کو جانوروں سے نہیں بلکہ اپنے جیسے انسانوں سے خطرہ ہے، اور صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے بعد مشینوں سے بھی خطرہ ہے۔ گویا ترقی کی یہ تمام منازل طے کرنے کے باوجود انسان اپنے لیے کوئی ایسا نسخہ کیمیا ایجاد نہیں کر پایا جس کی مدد سے وہ اپنے اضطراب پر قابو پالے اور اُس جانور کی طرح مطمئن ہو کر آنکھیں موند کر درخت کی چھاؤں میں سو سکے جس نے ابھی ابھی سیر ہو کر کھانا کھایا ہو۔ اِس نہ ختم ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کو لیو ٹالسٹائی نے ایک جملے میں یوں سمیٹا ہے’اپنی تمام عمر ہم عدم تحفظ کے احساس میں مُضطَرِب ہو کر ضائع کر دیتے ہیں، اور یہی تیاری کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں کیسے جینا ہے، چنانچہ اِس کشمکش میں زندگی ہی نہیں گزار پاتے‘۔
کبھی نہ مطمئن ہونا انسانی جبلت ہے، ہم دوسروں کو دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں، اُن کی آئیڈیل زندگی پر رشک کرتے ہیں، اور یہ نہیں سوچتے کہ اپنی جس زندگی سے ہم غیر مطمئن ہیں وہ زندگی اِس کُرّہ ارض پر بسنے والے کروڑوں انسانوں کے نزدیک آئیڈیل ہے۔ کالج کے زمانے میں شفیق الرحمٰن کا مضمون ’بیزاری‘ پڑھا تھا، وہ اِس صوتحال پر پورا اترتا ہے:’’ اب آپ کوئی اوسط درجہ کا گھرانا لے لیجیے۔ بچے بیزار ہیں کہ انہیں ڈانٹ دیا جاتا ہے۔ امی بیزار ہیں کہ نوکر کہنا نہیں مانتے۔ نوکر بیزار ہیں کہ میاں کے دوست بہت تنگ کرتے ہیں۔ اور میاں بیزار ہیں کہ بچوں کے ماموں تیسرے روز شکار کھیلنے آ جاتے ہیں۔ ماموں بیزار ہیں کہ رائفل کا لائسنس اب تک نہیں ملا۔ چچا بیزار ہیں کہ اُن کے صاحبزادے اپنی مرضی کے مطابق شادی کریں گے۔ اُن کے صاحبزادے بیزار ہیں کہ جن خاتون کو وہ چاہتے ہیں وہ اب کھنچی کھنچی سی رہتی ہیں اور وہ خاتون بیزار ہیں کہ اب اُن کا ہاضمہ خراب ہوتا جا رہا ہے۔ اور اکثر پسلی میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘
مہاتما بدھ سے لے کر آج تک، فلسفی اور روحانی پیشوا اسی گتھی کو سلجھانے میں لگے ہیں کہ کیسے انسان اپنی لامحدود خواہشات پر قابو پا سکتا ہے کیونکہ اصل میں یہ خواہشات ہی انسانی اضطراب کی بنیادی وجہ ہیں۔ رواقی فلسفی، جنہیں ہم stoics کہتے ہیں، اِس ضمن میں دو اصول بتاتے ہیں جنہیں اگر پلّے سے باندھ لیا جائے تو زندگی قدرے سکون میں آ سکتی ہے۔ ایک، اُن باتوں کے بارے میں سوچنے میں وقت ضائع کرنا حماقت ہے جو ہمارے بس میں نہیں۔ دوم، مشکلات اور تکالیف زندگی کا حصہ ہیں، جب تک دم میں دم ہے، یہ آتی رہیں گی، انہیں قبول کرنا ہے اور اِن کا مقابلہ کرنا ہے، اِن کی وجہ سے یہ نہیں سوچنا کہ میری زندگی میرے ہمعصروں کے مقابلے میں کمتر ہے، کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ جسے آپ آئیڈیلائز کر رہے ہیں، ممکن ہے وہ آپ کی زندگی کو دیکھ کر رشک کرتا ہو۔ لوگ جھوٹ بھی بہت بولتے ہیں!
واپس کریں