دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عورت با پردہ ہو، باقی خیر ہے
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
گذشتہ ہفتے اتفاق سے میری ملاقات اپنے ایک پرانے دوست عرفان سے ہوئی، جسے میں نے کافی عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے داڑھی رکھ لی ہے۔ اگرچہ داڑھی لمبی نہیں تھی مگر فیشن ایبل بھی نہیں تھی۔مزید حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس نے اپنے مخصوص انداز میں یہ کہنے کی بجائے کہ ’ارے! کیا چل رہا ہے؟‘ خالصتاً عربی لہجے میں میرا استقبال کیا، ’السلام علیکم!‘ اور مجھے مضبوطی سے گلے لگایا جیسے ہم عید پر مل رہے ہوں۔
عرفان کی کایا پلٹ دیکھ کر نہ جانے کیوں میں حیران ہوا، حالانکہ اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا لیکن پھر بھی میں سوچ رہا تھا کہ اس جیسا جدید ذہن رکھنے والا اور آئی ٹی کا ماہر یکایک اس قدر مذہبی کیسے ہو گیا۔
اور پھر مجھے اس تبدیلی کے بارے میں سوال کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ ’بھئی بات یہ ہے کہ (اس نے آہستہ سے اپنی داڑھی کو رگڑتے ہوئے کہا) جب بھی آپ کو صحیح راستہ مل جائے تو کبھی دیر نہیں ہوتی!‘ عرفان کا جواب تھا۔
قریب ہی ایک کافی شاپ تھی، میں نے اسے دعوت دی کہ وہاں بیٹھ کر ماضی کی کچھ یادیں تازہ کرتے ہیں، لیکن اس نے شائستگی سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ کسی مغربی ’چین‘ کی بجائے مقامی کھانے کی جگہ پر جانا پسند کرے گا۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھا، جس سے ملتے جلتے کپڑے سے اس نے سر ڈھانپ رکھا تھا۔
عرفان نے مجھے بتایا کہ آج کل اس کے گھر والے شادی کی کچھ تجاویز پر غور کر رہے ہیں مگر فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کیا کریں۔ ’ایسا کیوں ہے؟‘ میں نے استفسار کیا، کیونکہ عرفان جیسے لوگ عام طور پر بالکل صاف گو ہوتے ہیں اس لیے ان کو شادی کے معاملے پر الجھا ہوا پانا میرے لیے حیران کن تھا۔
’تم نے دیکھا،‘ اس نے چائے کے کپ سے ایک گھونٹ لیتے ہوئے کہا: ’اکثر لڑکیاں پردہ نہیں کرتیں، اس لیے میں ان میں سے کسی سے شادی نہیں کر سکتا۔‘’تو جو لڑکیاں پردہ کرتی ہیں، ان میں سے کوئی پسند کر لو؟‘ میں نے کہا۔
’اممم ٹھیک ہے۔۔ ان کے بارے میں (ایک لمحے کے لیے سوچتے ہوئے) میں یہ نہیں جان سکتا کہ وہ پرکشش ہیں یا نہیں؟‘ عرفان نے قدرے بےبسی کے لہجے میں کہا۔
’لیکن ہمارا مذہب ہر مرد اور عورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کا اچھی طرح مشاہدہ کریں اور اس میں جسمانی شکل بھی شامل ہے۔‘ میں نے عرفان کو اس کے لفظوں میں جواب دینے کی کوشش کی۔
’نہیں،‘عرفان نے اعتماد سے سر ہلایا، ’ہمارے مذہب میں کسی لڑکی کو کسی نا محرم کے سامنے چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں ہے، اپنے کزنز کے سامنے بھی نہیں، مکمل اجنبیوں کی تو بات ہی جانے دو!‘
اس وقت تک مجھ پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی تھی کہ اب اس سے بحث کرنا بے سود ہے لیکن پھر بھی میں بحث کو جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔
’اگر تمہارا استدلال درست ہے تو لاکھوں مسلمان عورتوں کو ان لاکھوں مردوں کے ساتھ، جو مکمل اجنبی ہیں، حج کرتے ہوئے اپنا چہرہ ڈھانپنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟‘ میں نے اپنے تئیں عرفان کے پیروں تلے سے زمین نکالنے کی کوشش کی۔
’اس کے پیچھے کوئی اور وجہ یا حکم ہو گا اور میں اپنے پیر صاحب سے بات کرنے کے بعد تمہیں بتاؤں گا۔‘
’ضرور پوچھنا مگر میرا حوالہ مت دینا!‘ میں نے طنزیہ انداز میں کہا تاکہ ماحول کو کچھ خوشگوار بنایا جائے لیکن بات نہیں بنی کیونکہ عرفان اب زیادہ سنجیدہ ہو رہا تھا۔یہ افسوس کی بات ہے کہ ہم ان چیزوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ میری رائے میں ہماری تمام ناکامیوں کی بنیاد یہی ہے، اسی لیے ہم دنیا میں ہر جگہ بدحالی کا شکار ہیں۔‘عرفان نے پورے یقین کے ساتھ بات ختم کی۔
’ہماری ناکامیوں کی اصل بنیاد کیا ہے؟‘ میں نے اس طرح پوچھا جیسے میں اس کے نقطہ نظر کو پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔
’ہم نے خود کو خدا کی تعلیمات سے الگ کر لیا ہے۔ اس فحاشی اور بےپردگی نے ہمیں برباد کیا، پوری دنیا میں رسوا کیا۔‘ عرفان اب زیادہ جذباتی ہو رہا تھا۔
’ممکن ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مگر میں نہیں سمجھتا کہ مسلمانوں کی تنزلی کی یہ وجہ ہے۔‘
اس پر عرفان نے مجھے طنزیہ انداز میں دیکھا اور کہا: ’لگتا ہے آپ نے ثانیہ مرزا کو شارٹس میں ٹینس کھیلتے نہیں دیکھا؟‘
میں نے جواب دیا: ’ہاں دیکھا ہے۔۔۔ اور دوست، وہ کتنی خوبصورت ہے!‘
یہ تم کہہ رہے ہو،‘ عرفان نے تاسف بھرے لہجے میں کہا: ’یہی ہماری ناکامیوں کی وجہ ہے۔ کیا تم نے اس کی برہنہ ٹانگیں نہیں دیکھیں جب وہ ٹینس کھیل رہی ہوتی تھی؟‘
میں نے جواب دیا: ’دیکھی تھیں، مگر وہ ثانیہ مرزا کا ذاتی فعل ہے، اس سے ہمارے مذہب کو کوئی خطرہ نہیں۔‘
میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں کی طرف سے اس طرح کی فحاشی اور بے حیائی کے کاموں کی وجہ سے ہم خدا کی طرف سے بجا طور پر سزا پا رہے ہیں،‘ عرفان نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
یہ دیکھ کر میں نے اس نہ ختم ہونے والی بحث کو سمیٹنے کا فیصلہ کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ میرے لیے ویب سائٹ بنا سکتا ہے۔
ہاں کیوں نہیں؟ آئی ٹی میرا شعبہ ہے، آخر میں یہی کام تو کرتا ہوں اور ویب سائٹس ڈیزائن کرنا تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے،‘ اس نے فخر سے کہا۔
ہممم.... مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا!.... ویسے میری ویب سائٹ کے لیے تم کون سا سافٹ ویئر استعمال کرو گے؟‘ میں نے پوچھا۔
’کیا مطلب؟۔۔۔۔میں ایک پروفیشنل ہوں اور میں جانتا ہوں کہ کون سا سافٹ ویئر استعمال کرنا ہے۔‘
یہ تو ٹھیک ہے.... لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کہیں تم پائریٹڈ سافٹ ویئر تو استعمال نہیں کرو گے؟‘
ہاں تو؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں وہی سافٹ ویئر استعمال کروں گا جو مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہیں۔‘ عرفان کی آواز میں اس بار وہ طنطنہ نہیں تھا۔
معاف کرنا یار۔۔۔ پھر میں تم سے اپنی ویب سائٹ نہیں بنواؤں گا۔‘ میں نے کہا۔
لیکن کیوں؟‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
کیونکہ پائریٹڈ سافٹ ویئر استعمال کرنا بھی ایک طرح کی چوری ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تم جیسا مذہبی آدمی میری ویب سائٹ کے لیے پائریٹڈ سافٹ ویئر استعمال کر کے گناہ کا مرتکب ہو۔‘
لیکن یہ گناہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں سافٹ ویئر سی ڈی کی قیمت ادا کر کے بازار سے خریدتا ہوں۔‘
میرے پیارے تم نے ابھی کہا ہے کہ تم ایک پروفیشنل ہو، اس لیے تم یقیناً اس حقیقت سے واقف ہو گے کہ جو سافٹ ویئر تم تقریباً مفت میں استعمال کرتے ہو وہ چوری شدہ ہوتا ہے جبکہ اصل سافٹ وئیر کی قیمت کئی ہزار روپے ہوتی ہے۔ تم کسی مغربی کیفے کی چین میں کافی پینا پسند نہیں کرتے، ثانیہ مرزا کے شارٹس سے تمہیں مسئلہ ہے، شادی کے لیے پردہ دار بیوی تلاش کر رہے ہو مگر جب بات مالی فائدے کی آتی ہے تو اس میں سے حیلہ تلاش کر کے چوری کو بھی جائز قرار دیتے ہو۔ میں یہ متضاد اخلاقی معیارات قائم رکھنے پر تمہیں سلام پیش کرتا ہوں۔‘
اس مختصر سے ’درس‘ کے ساتھ میں نے اپنے دوست سے مصافحہ کیا اور اسے اس دعا کے ساتھ چھوڑ دیا کہ وہ جلد ہی شادی کے لیے ایک خوبصورت لڑکی تلاش کر لے، ترجیحاً ’با پردہ۔‘
واپس کریں