دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حجامت۔(مکمل کالم)
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
دُکان میں اُس وقت زیادہ گاہک نہیںتھے، ایک شخص کی شیو کی جا رہی تھی جبکہ دوسرا شخص حجامت بنوا رہا تھا۔ استاد اخبار پڑھ رہا تھا، وہ شاذو نادر ہی کام کرتا تھا، زیادہ تر وہ اپنے کاریگروں کی ڈانٹ ڈپٹ کرنے میں لگا رہتا تھا، جب کوئی بابو قسم کا گاہک آتا تو وہ اُس کیلئے اٹھتا اور پھر اُس وقت استاد کا فن دیکھنے والا ہوتا۔ اُس کا چھوٹا شاگرد، جسے زیادہ تر استاد سے جھڑکیاں سننے کو ہی ملتی تھیں، استاد کے سر پر کھڑا ہو جاتا تاکہ اِس فن کی نزاکتیں سیکھ سکے۔ چھوٹے کواِس دکان میں اب سال ہونے کا تھا مگر اب بھی اُس کا ہاتھ رواں نہیں ہوا تھا، وہ کسی نئے گاہک کی شیو بنا لیتا تھا یا زیادہ سے زیادہ اُس کے سر کی مالش کر دیتا تھا، مالش کرنے میں اُس کا ہاتھ خوب چلتا تھا، کچھ گاہک تو اُس سے صرف چمپئی کروانے ہی آتے تھے، مگر اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ استاد کی نسبت اُسے دوسرے کاریگروں کے طعنے زیادہ سننے کوملتے تھے کہ وہ نالائق ہے، سیکھنے کا جذبہ نہیں، کہیں باہر جاتا ہے تو گھنٹے بعد واپس آتا ہے۔ یہ دُکان چونکہ ایک پُرانے محلے میں تھی سو یہاں اُجرت بھی کم تھی، کاریگروں کا گزارا گاہکوں کی بخشش پر زیادہ تھا۔ لیکن کاریگر اِس بخشش کیلئے محنت بھی بہت کرتے تھے، شیو کرنے کے بعد وہ گاہک کے گالوں کو ہولے ہولے تھپتھپاتے اور پھر اُس پر رنگ گورا کرنے والی کوئی کریم لگا کر اپنی ہتھیلیوں سے اُس کی کنپٹیوں کو سہلاتے ہوئے جب گاہک کی گردن کو انگلیوں اور انگوٹھے سے چُٹکی بناتے ہوئے دباتے تو ایک لمحے کے لیے تو شیو کروانے والے کو سرور آ جاتا۔ یہ تکنیک اب چھوٹے نے بھی سیکھ لی تھی، جن لوگوں کی وہ سر پر مالِش کرتا اُن کی گردن وہ اسی طریقے سے دباتا۔
استاد کے اپنے گاہک بھی لگے بندھے تھے جو صرف استاد سے ہی کام کرواتے تھے، لیکن اِس وقت جو گاہک آیا تھا وہ اُستاد کو بھی پسند نہیں تھا، مگر بااَمرِمجبوری اُستاد کو اُس کا کام کرنا پڑتا تھا۔ ناپسندیدگی کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں تھی بس وہ گاہک کچھ ضرورت سے زیادہ ہی باتونی تھا۔ یہ گاہک پہلے کبھی اِس محلے میں رہتا تھا مگر اب عرصہ دراز سے شہر کے پوش علاقے میں منتقل ہو چکا تھا، البتہ یہاں اُس کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ استاد نے جب اپنے گاہک کی حجامت بنانی شروع کی تو اُس نے اپنے نئے گھر کی تعمیر کا قصہ چھیڑ دیا۔ اُس نے بتانا شروع کیا کہ پہلے وہ اندرون شہر میں رہتے تھے جہاں اُن کی آبائی حویلی تھی لیکن جب اُس کا کاروبار بڑھا تو اُس نے شہر کی جدید بستی میں گھر بنانے کا ارادہ کیا۔ ’’لیکن میرے باپ کو اندرون شہر چھوڑنا پسند نہیں تھا، میں نے انہیں بہت منانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانے۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘ استاد نے بے دلی سے پوچھا۔ ’’میں نے بھی ہمت نہیں ہاری، نئی کوٹھی بنائی، چھ کروڑ روپے لگا دیے اور اپنے باپ کو کہا کہ ابّا ایک مرتبہ چل کے اپنے پُتّر کی کوٹھی تو دیکھ۔‘‘ استاد نے جواب میں فقط ’ہوں‘ کی۔ چھوٹا، استاد کے ساتھ ہی کھڑا تھا، اُس بیچارے کی تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ چھ کروڑ کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ گاہک نے اپنی کہانی جاری رکھی۔ ’’پھر ایک دن میں نے ابّے کو منا ہی لیا، ابّے کو میں نئی کوٹھی دکھانے لے گیا، میرے ابّے کو کوٹھی تو پسند آئی مگر اُس نے پھر بھی شہر چھوڑنے کی ہامی نہیں بھری، میں نے بہت زور لگایا تو اُس نے کہا کہ ایک شرط پر میری کوٹھی میں آئے گا کہ اگر میں ساتھ والے پلاٹ میں اُس کا ڈیرا بنا دوں جہاں اُس کے پرانے دوست بیٹھ کر گپ شپ لگا سکیں۔ لو جی، اتفاق دیکھیں کہ ساتھ والا پلاٹ خالی تھا، میں نے ساڑھے تین کروڑ کیش دے کر خرید لیا....ہا ہا ہا....کیوں جی کچھ سمجھ آئی؟‘‘ استاد نے جواب میں کچھ نہیں کہا، بس اُس کی گردن نیچے کر دی اور قینچی چلانے لگا۔ چھوٹا چپ چاپ کھڑا سب دیکھ سُن رہا تھا۔ ’’اوئے وہاں سے استرا پکڑ اور اُس میں بلیڈ لگا۔‘‘ استاد نے چھوٹے سے کہا۔ چھوٹا بجلی کی طرح لپکا اور پلک جھپکنے میں اُسترے میں نیا بلیڈ لگا کر استاد کو تھما دیا۔ گاہک نے البتہ اپنی بات جاری رکھی۔ ’’ بس جی پھر میں نے دن رات ایک کر دیا، ٹھیکیدار کو کہا کہ پیمنٹ کی فکر نہیں کرنی، مجھے یہ گھر ایک مہینے میں تیار چاہیے، وہی ہوا، مہینے کے اندر اندر عالیشان ڈیرا تیار تھا۔ میرا چار پانچ کروڑ اور لگ گیا مگر کوئی بات نہیں جہاں باپ کا حکم ہو وہاں ایسی چھوٹی موٹی رقموں کی کون پروا کرتا ہے۔ کیوں جی؟‘‘ استاد نے جواب میں اُس کی گردن مزید نیچے کر دی۔ اُس کی حجامت تقر یباًمکمل ہو چکی تھی، بس اب اُسترے کا باریک کام باقی تھا، استاد چاہ رہا تھا کہ جلد از جلد اُس کا کام ختم کرے، وہ اُس کی گفتگو سے بیزار ہو چکا تھا، مگر اُس کا پروفیشنلزم اِس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ اپنے گاہک کی حجامت عُجلت میں ختم کر دے۔ بہرحال اگلے پانچ منٹ میں اُس کی حجامت مکمل ہو گئی، حسب عادت استاد نے چھوٹے کو کہا کہ’’ صاحب کے چہرے سے بال صاف کرکے شیٹ اتار دو‘‘۔ چھوٹے نے پھُرتی سے استاد کی جگہ سنبھالی اور گاہک کے سر سے بال جھاڑنے لگا، چھوٹے کے ہاتھ میں بہت جان تھی، نہ جانے اِن چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں اتنی طاقت کہاں سے آ جاتی ہے، حالانکہ دیکھنے میں یہ بالکل مریل سے لگتے ہیں۔ چھوٹے نے گاہک کو چمپئی کرنا شروع کی تو وہ بھی خاموش ہو گیا، اب تک اُس نے دس بارہ کروڑ خرچ کرنے کی روداد سنا دی تھی مگر چھوٹے کے ہاتھ لگنے کے بعد اُس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ تقر یباً نیند میں چلا گیا۔ چھوٹے نے ہولے ہولے اُس کا سر دبانا شروع کیا، کبھی وہ اُس کی کنپٹیاں دباتا اور کبھی اپنی انگلیوں سے اُس کے کندھے پر حسبِ استطاعت دباؤ ڈال کر اسے سرور دینے کی کوشش کرتا۔ تقر یباً آدھ گھنٹے تک مالش کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر استاد نے زور سے کھانس کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا، یہ استاد کا مخصوص اشارہ تھا جو کاریگر خوب سمجھتے تھے، چھوٹے نے استاد کی طرف دیکھا اور پھر اُس کا اشارہ سمجھ کر گاہک کے سر پر اختتامی ہاتھ مار کر مالش ختم کر دی۔ گاہک نے جمائی لی اور کرسی سے اٹھ کھڑا۔ ’’ استاد جی کتنے پیسے ہوئے؟‘‘
’’ آپ کی کٹنگ کے چار سو ہوئے‘‘۔ ’’ کیا مطلب؟ کس بات کے چار سو؟ تین سو ریٹ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس گاہک نے شلوار کی جیب میں ہاتھ ڈالا، سو سو کے تین میلے سے نوٹ نکالے اور استاد کے ہاتھ پر رکھ دیے اور پھر چھوٹے کی طرف مُڑ کر بولا ’’اور بھئی چھوٹے، مزا آگیا تیری مالش کا، ایسے ہی محنت کیا کر۔‘‘ یہ کہہ کر گاہک نے سب کو با آواز بلند سلام کیا اور باہر نکل گیا۔
واپس کریں