یاسر پیرزادہ
پاکستان میں اگر کوئی ایک دانشور ہے جس نے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر تحقیقی اور علمی کام کیا ہے تو وہ عامر رانا ہے۔ آپ نہ صرف انگریزی کے کالم نگار ہیں بلکہ اردو کے ناول نگار بھی ہیں، اِس کے علاوہ بھی آپ کی ’ٹوپی میں کئی پر‘ لگے ہیں مگر اُن کی تفصیل بتانے لگا تو کالم ہی ختم ہو جائے گا۔ عامر رانا جب بھی لاہور آتے ہیں تو مہمان کی بجائے میزبان کا روپ دھار کر دوستوں کو ملاقات کیلئے مدعو کر لیتے ہیں جن میں یہ فدوی بھی شامل ہوتا ہے۔ ایسی ہی ملاقات گزشتہ شب ہوئی جس میں حبیب اکرم، گل نوخیز اختر اور شاہد گوندل جیسے اکابر شامل تھے، رسمی بات چیت کے فوراً بعد گفتگو کا رُخ اِس جانب مُڑ گیا کہ کیا ملک میں عمومی طور پر انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ تمام دوستوں نے اِس بات پر تو تقریباً اتفاق کیا تاہم بحث صرف اِس نکتے پر ہوئی کہ کیا ریاست اِس انتہا پسندی سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا اُس سے محروم ہو چکی ہے؟ عامر رانا کو چونکہ بہت سے مذاکروں اور سیمینارز میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے اور وہ عام لوگوں کی رائے سائنسی اندا زمیں سروے وغیرہ کے ذریعے مرتب کرتے رہتے ہیں تو اُن کا موقف خاصا جاندار ہوتا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش کم ہوتی ہے، اُن کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں اِس وقت ملک میں انتہا پسندی کا رُجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اِس کے بعد ہم نے سوات اور سرگودھا کے حالیہ واقعات پر گفتگو کی، مگر یہ بحث جاری رہی کہ کیا عام لوگ بھی انتہا پسند ہو چکے ہیں یا صرف معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ ہی اِس بِدعت کا شکار ہے؟
میری رائے میں ہمارا معاشرہ، تمام تر خرابیوں کے باوجود، عمومی طور پر انتہا پسند نہیں ہوا، یہ صرف چند مخصوص گروہ ہیں جنہوں نے ریاست کی رِٹ کو مذاق بنا رکھا ہے اور جواب میں ریاست نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل افراد اسے موقع پر جان سے مار دیتے ہیں، تو اُس واقعے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کا مزاج ہی وحشی ہو گیا ہے اور اِس میں بسنے والے چوبیس کروڑ انسان درندے بن چکے ہیں۔ مجھے خوش گمانی ہے کہ حالات ایسے برے نہیں ہیں۔ مثلاً، ہم آئے روز اخبارات میں ڈکیتی کی خبریں پڑھتے ہیں، آج کل اِن واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مل جاتی ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ دو چار مسلح ڈاکو بھرے بازار میں دکان لُوٹ کر چلے جاتے ہیں اور کوئی انہیں روک نہیں پاتا۔ کیا اِس سے یہ مطلب لیا جائے کہ چونکہ کوئی شخص ڈاکوؤں کے سامنے مزاحمت نہیں کرتا تو پورا بازار ڈاکوؤں کا ہمنوا ہو گیا ہے اور باقی دکاندار اِس لُوٹ مار کی حمایت کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہی مثالیں مذہبی تشدد کے واقعات پر بھی صادق آتی ہیں۔ کسی بھی علاقے میں چند سو مشتعل افراد، جنہیں کسی مذہبی گروہ کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، اگر کسی شخص کو توہین مذہب کے الزام میں مار دیتے ہیں تو اِس کایہ مطلب نہیں کہ پورا سرگودھا ڈویژن یا سوات شہر ہی انتہا پسند ہو گیا ہے۔ بے شک یہ چند سو ’مشتعل‘ افراد بھی بے حد خطرناک ہیں اور یوں کسی کو بنا ثبوت اور عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر جان سے ماردینا بے حد بھیانک رجحان ہے، کسی بھی مہذب معاشرے میں اگر ایسا ہو تو ریاست سر کے بل کھڑی ہو جائے اور اُس وقت تک سیدھی نہ ہو جب تک اِس انتہا پسند ی کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکے، مگر ہماری ریاست کو چونکہ اور بہت سے کام کرنے ہیں، اور یہ کام دلیری کا متقاضی ہے، اِس لیے کون اپنی جان کو خطرے میں ڈالے!
انتہا پسندی سے نمٹنے میں پولیس کا کردار بھی قابل رشک نہیں۔ ایک پولیس افسر نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ کسی تربیتی کورس کے دوران پولیس افسران کو ’کرائسس مینجمنٹ‘ پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دینے کے لیے کہا گیا۔ چوبیس افسران میں سے اٹھارہ افسروں نے توہین مذہب کے واقعات پر اپنی پریزنٹیشن دی اور کم و بیش تمام افسروں نے اِس کرائسس سے نمٹنے کا قابل فخر طریقہ یہ بیان کیا کہ انہوں نے اسی مظلوم کے خلاف پرچہ دے دیا جس کا گھر بار جلایا گیا تھا یا جس کو مشتعل افراد نے موقع پر ہی مار نے کی کوشش کی تھی۔ دراصل پولیس نے ایک لفظ سیکھ لیا ہے اور وہ ہے ’حساس معاملہ‘۔ جہاں بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، وہاں پولیس کا اعلیٰ سے اعلیٰ اور پھنے خان افسر بھی اسے حساس معاملہ قرار دے کر کہتا ہے کہ ’ہم اسے ہینڈل کر رہے ہیں۔‘ دو دن پہلے سوات میں بھی یہی ہوا۔ جب مشتعل ہجوم نے مدین کے تاریخی تھانےکو آگ لگا دی اور وہاں سے بندے کو نکال کر جان سے مار دیا تو اگلے روز پولیس نے بیان دیا کہ اب حالات قابو میں ہیں۔ یہ وہی پولیس ہے جس کے پاس 500 میٹر تک نشانہ لگانے والی جی تھری رائفلز ہیں اور عجیب و غریب قسم کے خود کار ہتھیار ہیں، لیکن یقینا ًیہ ہتھیار ’مشتعل ہجوم‘ کیلئے نہیں بلکہ ’غیر مشتعل ہجوم‘ کیلئے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ریاست کے پاس انتہا پسندی سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں، وہ غلطی پر ہیں، ریاست چاہے تو اِس عفریت پر چند دنوں میں قابو پایا جا سکتا ہے لیکن کیا کریں کہ پولیس ایک وقت میں ایک ہی کام یکسوئی سےکر سکتی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ انتہا پسندی کے واقعات نے ملک کا تاثر تباہ کرکے رکھ دیا ہے لیکن پورے معاشرے کو انتہا پسند کہنا بھی درست نہیں۔ معاشرے کا جھکاؤ دیکھنا ہو تو ٹی وی اور سوشل میڈیا کا جائزہ لیں، خاص طور سے ٹِک ٹاک اور انسٹا گرام، جہاں خواتین کے فیشن، گانوں اور ماڈلنگ کی بھرمار ہے، حتّیٰ کہ دیہات میں رہنے والی خواتین بھی اپنی بے باک قسم کی ٹک ٹاکس بنانے میں اب نہیں ہچکچاتیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بے شمار مذہبی مواد بھی دستیاب ہے مگر اُس کی پذیرائی کا تناسب وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے، یا یوں کہیے کہ اگر پورا معاشرہ جنونی ہوتا تو مذہبی انتہا پسندوں کو سوشل میڈیا پر اسی تناسب سے ریٹنگ ملتی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اِس ملک میں جب اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم یہ سوچ کر چُپ رہتے ہیں کہ ہم تو اکثریت میں ہیں، ہمیں بھلا کیا خطرہ! لیکن یہ خوش فہمی اب ہمیں دور کر لینی چاہیے، بقول جون ایلیا:
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
واپس کریں