دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ڈیماگوگ کو شکست دینا ممکن ہے
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
ہم سب کو یکایک یاد آگیا ہے کہ ایک ہفتہ پہلے تک بھارت میں انتخابات ہو رہے تھے اوراب اُنکے حیران کُن نتائج کے بارے میں لکھنا ہمارا فرض ہے۔اپنے ہاں کسی بھی شخص کو اُس وقت تک دانشور تسلیم نہیں کیا جاتا جب تک وہ امریکہ سے لے کر انٹارکٹیکا تک ہر ملک کے سیاسی اور سماجی حالات پر کما حَقّہ تبصرہ نہ کرسکے (اِس قسم کا تبصرہ غالباً حقہ پی کر کیا جاتا ہے )۔سو، آج اگر میں نے بھی انڈیا کے انتخابات پر اپنا ماہرانہ تجزیہ پیش نہ کیا تو لوگ سمجھیں گے کہ شایدمجھے گوگل کرنا بھی نہیں آتا ۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ حال کی بات کرنے سے پہلے ماضی میں جھانکتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اگر یوں ہوتا تو کیسا ہوتا، اگر ویسا ہوتا توپھر کیسا ہوتا ! ہندوستان کی بات کرتے ہیں ۔ آج سے 77 برس پہلے اگر 3 جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن ،کانگریس، مسلم لیگ اور سکھ رہنماؤں کے درمیان ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ نہ کرتا تو آج ہندوستان کے انتخابات کانتیجہ اور اِس خطے کا مستقبل شاید بالکل ہی مختلف ہوتا ۔عین ممکن ہےاُس صورت میں متحدہ ہندوستان کی وہی شکل ہوتی جو آج یورپین یونین کی ہے ، چھوٹی بڑی ریاستیں اور صوبے اپنی اپنی حدود میں خود مختار ہوتے اور اُنکی معیشت ، دفاع اور مواصلات کا نظام مشترک ہوتا۔مگر آج کی تاریخ میں یہ سب باتیں دیوانےکا خواب ہی لگتی ہیں سو انہیں چھوڑ کر حال پر ہی بات کرلیتے ہیں ۔
بھارتی انتخابات سے تین باتیںثابت ہوئی ہیں ۔پہلی۔سڑکیں ، پُل، ہوائی اڈے ، انفراسٹرکچر اور آنکھوں کو چُندھیا دینے والے پراجیکٹس کی افادیت کی ایک حد ہوتی ہے ۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو مودی جی کو با آسانی دو تہائی اکثریت مل جاتی کیونکہ اِس قسم کی جتنی ترقی ممکن تھی وہ مودی کے دور میں ہوئی ۔ میری نظر سے اُن کی ایک تقریر گزری جس میں وہ بڑے فخر سے اپنے دور میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا حجم بتا رہے ہیں جو حیرت انگیز ہے۔اُس تقریر میں مودی جی نے بھارت میں ہونے والی ترقی کا موازنہ دیگر ممالک کے ساتھ اِس انداز میں کیاکہ بندہ چکرا جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ دعوے درست ہیں ۔لیکن تمام تر ترقی کے باوجود بھارتی عوام نے ووٹ دے کر یہ بتادیا کہ نفرت کی سیاست کی بھی ایک حد ہوتی ہے ،مودی جی نے ہندوستان کی ترقی کے جو اعداد و شمار گنوائے وہ اپنی جگہ درست ہونگے مگر بھارتی عوام نے صرف اِن اعداد و شمار کو نہیں دیکھا بلکہ اُس نفرت کی انتہا کو بھی سامنے رکھاجوبی جے پی کے دور میں اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ہر بیانیے کا توڑ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ موثر جوابی بیانیہ بنانے کی صلاحیت موجود ہو۔ہر ڈیماگوگ کی طرح نریندر مودی نے بھی اپنے بیانیے کی تشکیل میں وہ تمام نعرے استعمال کیے جن سے انہیں سیاسی فائدہ پہنچ سکتا تھا ،جیسے کہ اپنے مخالفین کو ملک دشمن اور کرپٹ کہنا، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلاکر انہیں ہندوستان کے مسائل کی بنیادی وجہ قرار دینا، خود کو مہاتما سمجھنا اور اپنی پراپیگنڈا مشینری کے ذریعے لوگوں کے دماغ میں یہ بات راسخ کرنا کہ مودی جی کے پائے کا کوئی لیڈر ہندوستان میں موجودنہیں۔اِس بیانیے کی حمایت میں پورا بھارتی میڈیا کندھے سے کندھاملا کرمودی جی کے ساتھ کھڑا تھا جبکہ دوسری طرف کانگریس اتحادتھا جس کو یہ سہولت میسر نہیں تھی ،وہ نہ تو مذہبی سیاست کرسکتا تھا اور نہ ہی مودی جی کی طرح پاپولزم کا سہارا لے سکتا تھا ۔ پھر انہوں نے ایسا کیا کیا کہ مودی جی دو تہائی اکثریت نہ لے سکے بلکہ الٹا کانگریس اتحاد کو اتنی زیادہ نشستیں مل گئیں جن کا اُس اتحاد نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ایک تو راہول گاندھی نے ہندوستان کے طول و عرض میں جا کر عوام سے رابطے کی جو مہم چلائی اُس کا بہت مثبت اثر ہوا ،راہول گاندھی نے انتھک محنت اور قابلیت سے یہ کام کیا۔قابلیت اورمحنت کے علاوہ بیانیے کے توڑ کیلئے جو چیز ضروری ہے وہ سادگی اور دیانتداری ہےجس کی ایک مثال بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی ہے ۔جب آپ کے سامنے نریندر مودی جیسا ڈیماگوگ ہو(ایسا سیاستدان جو عقلی دلیل کا استعمال کرنے کے بجائے عام لوگوں کی خواہشات ، تعصبات اور جذبات کو ابھار کر حمایت حاصل کرتا ہے) تواُس کا مقابلہ کرنےکیلئے محض اچھی کارکردگی دکھانا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کس طرح خود کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اِس ضمن میں ممتا بینر جی سے بہتر کوئی ’ماڈل‘ نہیں ۔
تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ہم سیانے لوگ عام آدمی کو جتنا بودا سمجھتے ہیں وہ اتنا بودا نہیں ہوتا بلکہ سچ پوچھیں تو اُسکی معاملہ فہمی کچھ بہتر ہی ہوتی ہے ۔مودی جی کے حمایتیو ں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سی ای اوز سےلے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹی وی اینکرز تک سب شامل ہیں مگر انہیں مودی جی کی نفرت انگیز سیاست میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی ۔یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے Exit pollsکروائے اور ٹی وی پر بیٹھ کر پورے طنطنے کے ساتھ مودی جی کی 350 نشستیں جیتنے کی پیش گوئیاں کیں مگر عام ہندوستانی نے ووٹ کی طاقت سے انہیں غلط ثابت کردیا ۔اِس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کانگریس اتحاد کو محض غریب اور ان پڑھ لوگوں نے ووٹ ڈالا ، مدعا فقط یہ ہے کہ ہر ملک میں ایک طبقہ ایساہوتا ہے جسکی آواز میں طاقت ہوتی ہے اور اُس آواز کو سُن کریوں لگتا ہے جیسے یہی عوام کی آواز ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا، عوام کی خواہش جسے یاک روسو Will of the people کہتا ہے ، صرف جمہوریت میں ہی ظاہر ہوتی ہے اوربھارتی انتخابات نے اسی بات کوایک مرتبہ پھر ثابت کیاہے ۔
موجودہ دور میں جمہوریت پر ایک تنقید یہ کی جاتی ہے کہ اگر کوئی ڈیماگوگ پورے نظام کو یرغمال بنا لے تو جمہوریت میں اُس کا کوئی حل موجود نہیں کیونکہ ڈیماگوگ جس قسم کے ہتھکنڈے آزماتا ہے اُس کے مخالفین وہ کام نہیں کرسکتے ۔کسی حد تک یہ بات درست ہے مگر فی الحال تو نریندر مودی جیسے ڈیماگوگ کو بھارتی عوام نےکچھ نہ کچھ نکیل ڈال ہی دی ہے۔تاہم امریکہ اور کچھ دیگر ممالک کے عوام ابھی یہ کام نہیں کرسکے اور اِس کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ یا اِس جیسے لیڈران کی دانش مندی یا اُن کا زیرک ہونا نہیں بلکہ اُن کے مخالفین کی ناکامی ہے جو ڈیما گوگ کے جِن کو واپس میں بوتل میں نہیںڈال پا رہے ۔ہٹلر ، سٹالن یا ٹرمپ میں کوئی ایسی بات نہیں جو انہیں عام انسانوں سے ممتاز کرسکے ، فقط اِنکے مخالفین میں وہ دم خم نہیں رہا تھاجو اِن ڈیماگوگز کو شکست دینے کیلئے ضروری تھا۔انتخابات سے پہلے نریندر مودی خودکو لگ بھگ خدا سمجھتا تھا ، انسانوں نے ہی اسے واپس انسان بنا دیا۔پس ثابت ہوا ،ڈیما گوگ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔
واپس کریں