یاسر پیرزادہ
آج صبح ناشتہ کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرا وزن کچھ بڑھ گیا ہے،سو فوری ایکشن لینا ضروری سمجھا گیا، اِس مقصد کیلئےقرارداد منظور کی گئی کہ کل سے واک میں کم ازکم تین ہزار قدموں کا اضافہ کیا جائے۔ صرف اسی ایک اقدام سے طبیعت بشاش ہو گئی۔ ماضی میں بھی کئی مرتبہ دل میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی مگر بوجوہ اِس پر عمل نہ ہو سکا۔ اِس مرتبہ مصمم ارادہ ہے کہ پوری نیک نیتی سے قرارداد پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ یہاں لفظ نیک نیتی بے حد اہم ہے، میں اپنے آپ سے چاہے کوئی بھی وعدہ کر لوں، دل میں کیسی ہی قرارداد منظور کیوں نہ کر لوں، اگر میری نیت ہی ٹھیک نہیں تو پھر ہر قرارداد، ہر وعدہ، ہر عمل بیکار ہے۔
یہ تو ہوئی ذاتی بات، دلچسپ بات یہ ہے کہ قوموں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ کوئی بھی قوم جب اپنے نصب العین کے حصول کیلئے کچھ اقدامات کرتی ہے تو دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اُن اقدامات کا نتیجہ کیا برآمد ہوا۔ پاکستان کی مثال لیتے ہیں۔ بطور قوم ہم نے قرارداد مقاصد منظور کی اور اُس میں اپنے نصب العین کے مطابق دنیا جہان کی اچھی اچھی باتیں لکھ دیں، فی الحال میں اِس بحث میں نہیں جاتا کہ اُن میں سے کون سی بات درست اور کون سی غلط تھی، شہ سُرخی نکالی جائے تو یہ ہوگی کہ ہم پاکستان کو ایک آزاد، خود مختار، اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔
فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ ہم نے 73ء کا آئین بنایا، اِس آئین میں صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس، سپہ سالار اور چیف الیکشن کمشنر سمیت سب کے حلف نامے درج کیے، وفاقی شرعی عدالت بنائی اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی، پارلیمان کو ہم مجلس شوریٰ کہتے ہیں، نگران حکومتوں کا اچھوتا تصور بھی ہم نے پیش کیا اور کلیدی عہدوں پر تعیناتی کیلئے سینارٹی کا اصول بھی نافذ کرکے دیکھ لیا۔ یہ تمام کام ہم نے کیے مگر نتیجہ وہی نکلا، صفر بٹا صفر۔ وجہ بدنیتی۔
تھوڑی دیر کیلئے چین چلتے ہیں۔ وہاں مغربی جمہوری نظام نہیں ہے، امریکہ اور مغربی ممالک چین پر کڑی تنقید کرتے ہیں کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، اظہار رائے کی آزادی نہیں، ایک پارٹی کی حکومت ہے، جس نے سیاست کرنی ہے اُس پارٹی میں شامل ہوکر کرے ورنہ گھر بیٹھے، لوگوں کی نجی زندگی میں بھی ریاست کی مداخلت ہے، عدالتیں بھی آزاد نہیں، گویا مغربی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو چین میں قطعاً کوئی مثالی نظام نافذ نہیں ہے مگر چین نے اسی نظام کے تحت 1981ء سے 2008ء کے درمیان تقریباً ساٹھ کروڑ افراد کو غربت کی دلدل سے باہر نکالا جو کسی معجزے سے کم نہیں۔ اِسی نظام کے تحت چین نے پیرس اولمپکس میں امریکہ کے برابر چالیس طلائی تمغے حاصل کیے اور اسی نظام کے تحت چین اِس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ گویا ایک غیر جمہوری نظام بھی کامیابی سے چلایا جا سکتا ہے اگر نیت ٹھیک ہو۔ خدا میرے گناہ معاف کرے، میرا مقدمہ کسی غیر جمہوری نظام کے حق میں نہیں فقط یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ نظام چاہے کتنا ہی لولا لنگڑا کیوں نہ ہو اگر خلوص نیت سے چلایا جائے تو اُس میں سے بھی مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اِس کے برعکس ہمارے آئین میں ہر اچھی بات لکھی ہے، حلف نامے ایسے ہیں کہ پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، آرٹیکل چھ بھی موجود ہے، مگر انہی حلف ناموں اور اسی آرٹیکل چھ کے ہوتے ہوئے ملک میں نہ صرف علانیہ اور غیرعلانیہ مارشل لگے بلکہ عدالتوں نے انہیں جواز بھی فراہم کیا۔ اِس صورتحال میں آپ چاہے ملک میں امریکہ کا آئین نافذ کر دیں، جب تک اُس پر نیک نیتی سے عمل نہیں ہو گا، وہ آئین بھی بیکار ہو گا۔ دنیا کا کوئی ایسا تجربہ نہیں جو ہم نے کرکے نہ دیکھا ہو، آمریت (فوجی ڈکٹیٹرز کی شکل میں)، اسلامی نظام (جنرل ضیاءالحق کی صورت میں)، جمہوری نظام (میثاق جمہوریت کے تحت) اور کوئی ایسی آئینی ترمیم نہیں جو ہم نے سوچی ہو اور نہ کی ہو، مگر اِس کے باوجود ہمارے حالات کچھ خاص بہتر نہیں ہوئے۔ گویا جس طرح موبائل فون میں محض ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے سے خود بخود وزن کم ہونا شروع نہیں ہو جاتا اسی طرح محض آئین بنانے، ترامیم کرنے یا اُس میں حلف نامے درج کرنے سے کوئی ملک جمہوری یا ترقی یافتہ نہیں ہو جاتا۔
ہم کوئی پہلی یا آخری قوم نہیں جسے اِس قسم کے حالات کا سامنا ہے، ابن باجہ کے سامنے یہ مقدمہ رکھا گیا کہ اگر سیاست دان کرپٹ ہوں، ریاست درست سمت میں نہ چل رہی ہو اور ادارے ناکارہ ہوچکے ہوں تو اِن حالات میں کسی مفکر کو کیا کرنا چاہیے، کیا اُسے سازگار ماحول کا انتظار کرنا چاہیے یا اسی ماحول میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اِس سوال کا جواب ابنِ باجہ نے اپنی کتاب ’تدبیر المتوحد‘ میں دیا۔ ابنِ باجہ کہتے ہیں کہ اگر ریاست کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہو تو دانشور کو سیاست سے پرے رہ کر، اعلیٰ اقدار کے تابع، تنہائی کی زندگی گزارنی چاہیے، یعنی ایسا مفکر ریاست پر تو حکومت نہیں کرے گا مگر اپنی ذات پر حکومت ضرور کرے گا اور وہ ذاتی حکومت مثالی ہونی چاہیے، اسے دیکھ کر ملک میں مزید ایسے لوگ پیدا ہوں گے جنہیں حکومت کی خواہش نہیں ہو گی لیکن اُن کے کردار کی عظمت سے عوام اور ارکان پارلیمان متاثر ہوں گے اور یوں ایک زوال پذیر ریاست دھیرے دھیرے معاشی اور اخلاقی ترقی کی راہ پکڑ لے گی۔(قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ از آغا افتخار حسین)۔
مجھے اندازہ ہے کہ لوگوں کو ابنِ باجہ کا بتایا گیا یہ حل پسند نہیں آئے گا کیونکہ آج کل لوگ ہر مسئلے کا فوری حل چاہتے ہیں جبکہ یہ طویل المدتی حل ہے، بقول سناتن (گلزار کی فلم ماچس فلم کا ایک کردار جو اوم پوری نے نبھایا)، ’’میں کسی آنے والی نسل کی لڑائی نہیں لڑ رہا، مجھے اپنا حق چاہیے، ابھی اسی زندگی میں۔‘‘ سچ پوچھیں تو اِس مسئلے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، اور جو ہمارے کرتوت ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی کے ریڈار پر طویل المدتی حل بھی نہیں ہے۔ بہترین ممکنہ صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ بتدریج ہمارے معاشی حالات بہتر ہوں، جس کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہوئے ہیں، ہمیں سانس لینے کا موقع ملے، اُس کے بعد ہماری آنکھیں کھلیں اور ہم سوچ سمجھ کر چند درست فیصلے کریں۔ وگرنہ اِس وقت کی صورتحال تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت سر ڈھانپتی ہے تو پیر ننگے ہو جاتے ہیں اور پیروں پر چادر ڈالتی ہے تو سر ننگا ہو جاتا ہے، ایسے میں کسی بھی حکمران کیلئے کوئی بھی ڈھنگ کی بات سوچنا کس قدر مشکل ہے، اِس کا ہم اور آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ خرابی ہمارے مقدر میں نہیں، ہم میں ہے!
واپس کریں