دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنت کا ایک پلاٹ
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
مراکش سے لندن کی پرواز قدرے تاخیر سے روانہ ہوئی، جہاز کے کپتان نے اس کیلئے معذرت بھی کی جسے سن کر یوں لگا جیسے وہ لطیفہ سنا رہا ہو، بعد میں پتا چلا کہ وہ واقعی لطیفہ تھا۔ ہوائی جہاز میں کیے جانے والے اعلانات ایسے ہی ہوتے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کپتان کیا کہہ رہا ہے، نہ جانے یہ مائیک کو منہ کے بالکل ساتھ لگا کر کیوں بولتے ہیں۔لندن سے آگے مانچسٹر جانا تھا مگر ہم ڈربی سے ہوتے ہوئے گئے، مقصد اپنے مرشد اور مربی عارف وقار سے ملاقات تھی۔ ڈربی ایک چھوٹا سا قصبہ نما شہر ہے، مگر برطانیہ کے ہر شہر کی طرح یہاں بھی تمام سہولتیں دستیاب ہیں۔ عارف صاحب کی خواہش تھی کہ ہم ان کے ساتھ کسی ترک ریستوران میں کھانا کھاتے مگر میری نام نہاد ڈائٹنگ رکاوٹ بن گئی۔ ویسے سفر میں ڈائٹنگ کی کوشش کرنا کار لا حاصل ہی ہوتا ہے،ہر کھانے کے بعد عہد کرتا ہوں کہ اب روزِ ابر و شب ِ مہتاب میں ــــ کھاؤں گا مگر مصیبت یہ ہے کہ ولایت میں روزِ ابر و شب ِ مہتاب ہی رہتا ہے۔ لیکن پہلے کچھ بات ڈربی کی ہو جائے۔ سچ پوچھیں تو حاصل سفر ڈربی میں عارف وقار سے ملاقات تھی۔ عارف صاحب جیسے بندے اب دو چار ہی رہ گئے ہیں، آپ ماہر لسانیات ہیں، استاد ہیں، لکھاری ہیں، ہدایتکار ہیں، دبئی چلو ڈرامہ انہی کی تخلیق تھا، آپ نے وائس آف امریکہ اور بی بی سی میں کئی دہائیوں تک کام کیا، اس کے علاوہ آپ فلم اور موسیقی کے نقاد ہیں اور عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے عارف صاحب جیسا عالم فاضل شخص کم ہی دیکھا ہے جو اس قدر منکسر المزاج ہو کہ محفل میں بیٹھے تو خاموشی سے دوسروں کی گفتگو سنتا رہے اور کبھی یہ نہ کہے کہ ٹھہریے صاحب میں نے یہ بات پڑھی ہے، میں جانتا ہوں، میں آپ کو بتاتا ہوں!کووڈ کے دنوں میں عارف صاحب نے مجھے دیوان غالب اور ہیر وارث شاہ کی مکمل شرح ’’وٹس ایپ‘‘پر پڑھائی۔ ہفتے میں تین دن اس کام کیلئے مختص تھے اور عارف صاحب ایسی دلجمعی سے یہ سیشن لیتے تھے کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ کسی دن میں ڈربی کی وہ ’’یونیورسٹی ‘‘دیکھوں جہاں بیٹھ کر عارف صاحب مجھے فون پر غالب اور وارث شاہ کے بارے میں درس دیتے تھے، خدا کا کام دیکھیں، میری یہ خواہش گزشتہ ہفتے پوری ہو گئی جب میں عارف صاحب کو ڈربی میں ان کے مکان میں ملا۔ یہ ایک ایسا ناقابل بیان تجربہ تھا کہ میرے جیسا بندہ بھی جذباتی ہوگیا۔
مانچسٹر پہنچے تو شام کے پانچ بج رہے تھے۔ یہ شہر لندن سے بالکل مختلف ہے، گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ کی بڑی کمپنیوں اور ٹی وی چینلز نے اپنے دفاتر لندن سے مانچسٹر منتقل کیے ہیں اور اِس کی وجہ لندن کی مہنگائی ہے۔بی بی سی کا صدر دفتر بھی اب مانچسٹر میں ہے۔ لندن کی طرح یہاں پارکنگ کا عذاب بھی نہیں ہے، چونکہ آبادی کم ہے اور یہ کوئی سیاحتی مقام بھی نہیں ،اِس لیے یہاں رش کم ہوتا ہے۔ شہر میں جا بجا نئی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں جن میں دفاتر اور رہائشی اپارٹمنٹس بنائے جارہے ہیں ۔یہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور یوں لگتا ہے کہ ایک دن یہاں سے گورے نکل جائیں گے اور صرف پاکستانی رہ جائیں گے۔ یہاں ہمارے میزبان محمود اصغر چوہدری تھے، جو کہ منفرد لکھاری اور سفر نامہ نگار ہیں اور کئی برس تک اٹلی میں بھی رہے ہیں جہاں وہ اطالوی حکومت کی امیگریشن کے معاملات میں معاونت کرتے تھے۔ یورپ اور برطانیہ کےا میگریشن قوانین انہیں ازبر ہیں ،اٹلی میں انہوں نے سینکڑوں تارکین وطن افراد کی امیگریشن میں مدد کی جن میں پاکستا ن کے علاوہ کئی پسماندہ ممالک کے لوگ شامل تھے۔ پھر انہوں نے اٹلی سے ہجرت کی اور برطانیہ آکر بس گئے ۔اُن کا کہنا ہے کہ لوگ خواہ مخواہ غیر قانونی طریقے سے یورپ اور برطانیہ آنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اِن ممالک میں اگر آپ قانونی طریقے سے آئیں اور باقاعدہ اجازت لے کر کام کریں تو یہاں مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ بندہ حیران ہوجاتا ہے کہ کیسے اِن ممالک کی حکومتیں اپنے شہریوں کے ساتھ واقعی ماں کی طرح برتاؤ کرتی ہیں۔
مانچسٹر سے دو گھنٹے کی مسافت پر لیک ڈسٹرکٹ ہے جو برطانیہ کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ پورا علاقہ ایک جھیل کے کنارے آباد ہے ، جھیل کیا ہے گویا سمندر ہے،تا حد نگار پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ جھیل کے چاروں جانب خوبصورت مکانات اور ریستوران ہیں، امرا نے اپنے محل بھی تعمیر کر رکھے ہیں، سینکڑوں کشتیاں بھی جھیل میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ ہم نے بھی ایک کشتی میں جھیل کا چکر لگایا، کپتان نے بتایا کہ ہر سال یہاں پانچ ہزار نئی کشتیاں رجسٹر ہوتی ہیں، اِس سے اندازہ لگائیں کہ یہاں سیاحت اور امارت کا کیاحجم ہوگا۔وجہ اِس کی وہی ہے کہ جھیل کی قدرتی خوبصورتی کے علاوہ یہاں کی آبادی نے بھی اِس جگہ کو پُرکشش بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے،ایسا نہیں ہے کہ لوگ یہاں صرف پکوڑے تل کر بیچ رہے ہیں بلکہ جھیل کے ارد گرد پورے علاقے میں جا بجا چھوٹی چھوٹی دکانیں اور صاف ستھرے ہوٹل ہیں۔گو کہ مطلع صاف نہیں تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی مگر اِس کے باوجود جھیل کا نظارہ ایسا تھا کہ ہم گھنٹوں بارش میں کھڑے ہوسکتے تھے۔فضا میں مچھلی کے تلنے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی، فِش اینڈ چپس ویسے بھی انگریزوں کی مرغوب غذا ہے ، لیکن ہم ہوٹل سے بھرپور ناشتہ کرکے نکلے تھے اِس لیے صرف آئس کریم کھانے پر اکتفا کیا۔ بقول مشتاق یوسفی ’’آئس کریم قلب کو ٹھنڈک پہنچاتی اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہے بشرطیکہ مقدار قلیل نہ ہو۔‘‘ہم نے لیک ڈسٹرکٹ کا منظر اپنی آنکھوں میں سمیٹنے کی کوشش کی مگر دو آنکھوں سے بندہ کیا کیا دیکھے ، یہی سوچتے ہوئے ہم وہاں سے روانہ ہوگئے کہ اگر یہ دنیا ہے تو جنت کیا ہوگی!
واپس کریں