دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سوچ سمجھ کر سوچیں
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
آج صبح ایک انگریزی اخبار میں مضمون نظر سے گزرا، عنوان تھا ’ہمیں کس طرح نہیں سوچنا چاہیے‘۔ اِس قسم کے موضوعات سے مجھے خاصی دلچسپی ہے اِس لیے فورا ً ’کلک‘ کر دیا اور پڑھتا چلا گیا۔ مضمون نگار کا نام اسد میاں ہے، آغا خان یونیورسٹی میںہوتے ہیں۔ اپنے مضمون میں انہوں نے نہایت صراحت کے ساتھ بتایا ہے کہ ہمیں فیصلہ سازی کے دوران کن باتوں کو نظر انداز کر کے اپنی سوچ کو درست سمت میں رکھنا چاہیے ۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں حکومتیں اور عوام دونوں جذبات کے زیر اثر فیصلے کرتے ہیں، اگر کوئی شخص عقل و شعور کی بات کرے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے ۔بچوں کی شادی کے معاملات ہوں یا کاروباری مسائل، حکمرانی کی پیچیدگیاں ہوں یا زندگی کا کوئی فیصلہ کُن موڑ، اِن تمام مراحل پر فیصلہ کرتے وقت ہماری سوچ پر کچھ عوامل غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں جس کی بنا پر ہم درست فیصلہ نہیں کر پاتے اور یوں مستقبل میں اُس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے ۔وہ عوامل کیا ہیں، اُن کا ادراک کیسے کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے تعصبات سے جان چھڑا کر دستیاب حقائق کی بنیاد پر صحیح فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے، یہ تمام باتیں اسد میاں نے اپنے مضمون میں بیان کی ہیں، اور آج میں انہی کی تلخیص پیش کررہا ہوں۔
فیصلہ سازی کے دوران ایک بڑی غلط فہمی اُس وقت جنم لیتی ہے جب ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ’چونکہ ہم نے یہ کیا اِس لیے یہ نتیجہ نکلا۔‘ مغالطہ اِس میں یہ ہے کہ ہم کسی مخصوص عمل اور اُس کے بعد پیش آنے والے حالات کو اُس عمل کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں جبکہ ضروری نہیں کہ دونوں کے درمیان سرے سے کوئی تعلق بھی ہو۔ اِس کی مثال یوں ہےکہ اگر کوئی مریض کسی دوا کے استعمال سے صحت یاب ہوجائے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ دوا نے اثر کیا ہو گا، ممکن ہے کیا ہو، مگر ضروری نہیں، کیونکہ ہمارے جسم میں قدرتی طور پر مدافعاتی نظام بھی کام کرتا ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ دوا سے پہلے ہی وہ نظام حرکت میں آچکا ہو اور صحت یابی کا عمل شروع ہو چکا ہو۔ اِس سے ملتا جلتا ایک مغالطہ اور بھی ہے جسے جواری کی غلط فہمی کہتے ہیں، تاش کی بازی لگاتے ہوئے جواری اکثر یہ سوچتا ہے کہ اگر اُس کے ہاتھ میں کافی دیر سے برے پتّے آرہے ہیں تویہ ’بد قسمتی‘ مسلسل جاری نہیں رہ سکتی لہٰذا جلد ہی اچھے پتّے ملیں گے۔ مفروضہ اِس میں یہ ہے کہ گزشتہ واقعات کا اثر مستقبل پر ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ اِن غلط فہمیوں سے جان چھڑانے کا طریقہ یہ ہے کہ فیصلہ کرتے وقت آپ کے پاس زیادہ سے زیادہ ٹھوس حقائق ہوں اور آپ محض ماضی کےاُن واقعات یا تجربات کو بنیاد نہ بنائیں جو کسی وجہ سے آپ کی یاد داشت میں رہ گئےکیونکہ ہمارے دماغ میں زیادہ تر وہ باتیں رہ جاتی ہیں جو ہیجان انگیز یا چونکا دینے والی ہوتی ہیں ، اسی لیے ہم غیر ارادی طور پر انہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں جس کی وجہ سے فیصلہ کرنے میں غلطی ہوجاتی ہے۔
فیصلہ سازی کے عمل میں بہت سے لوگ یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں ’سب پتا ہے اور وہ معاملات کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔‘ غیر منطقی قسم کا یہ اعتماد سرکاری افسران کا خاصہ ہے، اپنے مرتبے کی بنیاد پر وہ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ کسی بھی شعبے میں اُن کی مہارت دوسروں سے بڑھ کر ہے ،جبکہ حقیقت میں اُن کا علم محدود ہوتا ہے جس کی وجہ سے فیصلہ کرنے میں غلطی ہوتی ہےاور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ حد سے زیادہ پُر اعتماد ڈاکٹروں کا بھی یہ مسئلہ ہے، اسی اعتماد کی وجہ سے بعض اوقات ڈاکٹر صاحبان مریض کے پیٹ میں قینچی بھول جاتے ہیں ۔ذاتی زندگی میں عام لوگ بھی اِس مغالطے کا شکار ہوسکتے ہیں ،اکثر دیکھا گیا ہے کہ اپنے شعبے کے قابل افراد کسی ایسی جگہ سرمایہ کاری کرلیتے ہیں جس کے بارے میں انہیں درست معلومات نہیں ہوتیں ،لیکن اپنے بارے میں چونکہ وہ ضرورت سے زیادہ پُر اعتماد ہوتے ہیں اِس لیے سمجھتے ہیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ علم ہے اور نتیجے میں نقصان اٹھاتے ہیں۔ یہی حال حکومتوں کابھی ہے، اہم معاملات کا فیصلہ کرتے وقت حکمران یہ فرض کرلیتے ہیں کہ چونکہ وہ اپنی سیاسی مہارت کی بنیاد پر اقتدار میں آئے ہیں لہٰذا اُن سے زیادہ زیرک بھلا اور کون ہو سکتا ہے، یہی وہ حد سے زیادہ غیر عقلی اعتماد ہے جو غلط فیصلوں کا سبب بنتا ہے ۔اِس مسئلے کا حل اُس بات میں پوشیدہ ہے جو سقراط نے سینکڑوں سال پہلے کہی تھی کہ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ بہرحال ہم سقراط سے زیادہ دانشمند نہیں اور یہ کہ انسان کو مسلسل سیکھنے اور اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر ہم غیر معقول قسم کے اعتماد سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
ایک منٹ کیلئے فرض کریں کہ آپ کسی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شریک ہیں اور وہاں کسی پیچیدہ مسئلے پر فیصلہ ہونا ہے، غالب امکان یہ ہے کہ اجلاس میں جو تجاویز پیش کی جائیں گی اُن میں سے وہ منظور کر لی جائیں گی جو نسبتاً سادہ اور عام فہم ہونگی۔ اِس مغالطے کو Occam's Razor کہتے ہیں، یعنی دقیق اور الجھے ہوئےمسائل کے حل کیلئے لوگ عموماً سیدھی سادی تشریحات کو قبول کر لیتے ہیں چاہے وہ درست نہ بھی ہوں، گویا پیچیدہ معاملات کی پڑتال کرنے کی بجائے ہم آسان اور زیادہ قابل فہم حل تلاش کرنے کی جانب راغب ہوتے ہیں اور یوں غلط نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ انسان ویسے بھی ذہنی طور پر جُز رس واقع ہوا ہے، کوئی بھی اپنے دماغ کو تھکانا نہیں چاہتا، ایک حد کے بعد ہمارا ذہن کسی بھی معاملے کی چھان پھٹک کرنے سے بیزار ہو جاتا ہے اور ہم سہل پسندی کا شکار ہو کر اُس حل کو قبول کر لیتے ہیں جو شاید بہترین نہ ہو مگر سب کی سمجھ میں آ جائے۔ اِس ذہنی کنجوسی کے ساتھ ہم کپڑوں کی خریداری بھی نہیں کرتے مگر زندگی کے اہم فیصلے کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے تمام عمر پچھتانا پڑتا ہے۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگر ہماری قوم خاصی جذباتی ہے، لہٰذا جب کوئی شخص انہیں حقائق دکھاتا ہے تو و ہ مایوس ہو جاتی ہے اور اسی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتی ہے، اسی لیے معاشرے میں وہ لوگ زیادہ ’کامیاب‘ ہیں جو پہلے سے موجود مقبول بیانیے کی ترویج کرتے ہیں چاہے اُس بیانیے کی کوئی عقلی بنیاد ہو یا نہ ہو۔اسی بات میں شہرت ہےاور اسی میں پیسہ۔
کالم کی دُم: سید ضمیر جعفری نے ایک مرتبہ انگریزی کے کسی مشہور شاعر کی نظم ’مسز ولیم‘ کا ترجہ کیا اور ساتھ ہی کہا کہ یہ نظم میری نہیں ہے مگر اب اُس شاعر کی بھی نہیں رہی۔ سو، قارئین، تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔
واپس کریں