دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ٹرمپ کا شکریہ: پاکستان کی انٹیلی جنس اور فوجی قیادت کی عالمی پذیرائی
No image خالد خان ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کیا، بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ امریکی کانگریس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انہیں یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر حملے کے مرکزی منصوبہ ساز کو پکڑ لیا گیا ہے۔ اس دہشت گرد کی گرفتاری میں پاکستان نے خصوصی مدد فراہم کی، جس پر وہ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
یہ اپنی نوعیت کا منفرد بیان تھا، کیونکہ ماضی میں ٹرمپ پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیتے رہے ہیں۔ وہ صدارت کے پہلے دور میں پاکستان کی فوجی امداد معطل کر چکے تھے اور بارہا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات لگاتے رہے۔ تاہم، اب ان کے لب و لہجے میں واضح تبدیلی نظر آئی۔ اس اچانک تبدیلی کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ماضی کے بیانات اور موجودہ عالمی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ یہ بیان امریکی خارجہ پالیسی میں ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ افغانستان سے انخلا کے بعد، امریکا کو جنوبی ایشیا میں ایک ایسے شراکت دار کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو خطے میں اس کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حالیہ برسوں میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کی ہیں، اور یہ گرفتاری اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہمیشہ خطے میں استحکام کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ فارن پالیسی جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستانی انٹیلی جنس نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جو مہارت اور عزم دکھایا ہے، وہ اس خطے میں کسی اور ادارے کے پاس نہیں۔ داعش کے خلاف حالیہ آپریشنز سے لے کر القاعدہ کی کمر توڑنے تک، پاکستان نے نہ صرف اپنے بلکہ عالمی سیکیورٹی مفادات کا دفاع کیا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے بھی پاکستانی انٹیلی جنس کی ان کامیابیوں کا اعتراف کر چکے ہیں۔ دی نیویارکر کے مطابق، امریکی سی آئی اے کے کئی سابق افسران یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی ایجنسیاں ایسے نیٹ ورکس کا سراغ لگانے میں غیر معمولی مہارت رکھتی ہیں، جنہیں مغربی ممالک کے انٹیلی جنس ادارے اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اس اعتراف پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے تاکہ دہشت گردوں اور شدت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہوں سے محروم کیا جا سکے اور کسی بھی ملک کے خلاف ان کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اس مقصد کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جن میں 80,000 سے زائد فوجیوں اور شہریوں کی جانوں کا نذرانہ شامل ہے۔
یہ پیش رفت محض سفارتی بیانات تک محدود نہیں بلکہ اس کے پسِ پردہ کئی عوامل کارفرما ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ بیانات درحقیقت امریکا کی اپنی مجبوریوں کا نتیجہ ہیں۔ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات اگرچہ قریبی ہیں، مگر چین، روس اور ایران کے ساتھ بھارت کی بڑھتی قربتوں نے امریکی پالیسی سازوں کو متبادل حکمت عملی پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ امریکا کو اس خطے میں ایسے اتحادیوں کی ضرورت ہے جو چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو محدود کر سکیں، اور اس تناظر میں پاکستان دوبارہ امریکی پالیسی میں اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ دوسری طرف، دی گارڈین نے لکھا کہ ٹرمپ کا پاکستان کی تعریف کرنا ان کی مہم جو اور متغیر فطرت کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ ماضی میں غیر متوقع فیصلے کر کے امریکی عوام اور عالمی تجزیہ کاروں کو حیران کرنے کے عادی رہے ہیں، اور شاید اب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ان کے حریف، ڈیموکریٹس، چین کے ساتھ سخت رویہ اپنانے میں نسبتاً نرم رہے ہیں، اور ٹرمپ پاکستان کو ساتھ ملا کر چین کے خلاف نئی حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔
پاکستانی فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت بھی اس سفارتی تبدیلی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستانی آرمی چیف کے امریکا کے دورے اور اعلیٰ سطحی ملاقاتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دونوں ممالک دفاعی اور سفارتی سطح پر نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ بلوم برگ نے رپورٹ کیا کہ پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت نے واشنگٹن میں امریکی عسکری اور سیاسی رہنماؤں سے جو ملاقاتیں کیں، ان میں دوطرفہ سیکیورٹی تعاون اور انسدادِ دہشت گردی کے معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، امریکی حکام پاکستانی فوج کی علاقائی سیکیورٹی حکمت عملی کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصے میں دونوں ممالک کے عسکری تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
پاکستانی حکام کے لیے یہ ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ چیلنجز بھی جڑے ہیں۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنی سفارتی خودمختاری کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔ اگرچہ امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات سے معیشت اور دفاع کے شعبوں میں فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن دوسری طرف چین، روس اور ایران کے ساتھ موجودہ تعلقات کو متاثر کرنے کا خدشہ بھی رہے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سفارتی توازن برقرار رکھتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سینئر تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کے مطابق، ٹرمپ کا پاکستان کی تعریف کرنا تعلقات میں بہتری کی علامت ضرور ہے، مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ محض ایک وقتی سفارتی چال ہے یا واقعی ایک نئے باب کا آغاز۔
ٹرمپ کا پاکستان کے لیے شکریہ ادا کرنا بظاہر ایک سادہ بیان لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے بین الاقوامی سیاست کی ایک پیچیدہ بساط ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع بھی ہے اور ایک آزمائش بھی۔ اگر پاکستان سفارتی چالوں کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھے، تو اسے نہ صرف امریکی حمایت حاصل ہو سکتی ہے بلکہ اپنے قومی مفادات کا بہتر تحفظ بھی کر سکتا ہے۔ تاہم، اس سارے عمل میں محتاط رہنا ناگزیر ہوگا، کیونکہ بین الاقوامی سیاست میں کوئی فیصلہ حتمی نہیں ہوتا—یہ ہمیشہ بدلتے مفادات کے تابع رہتا ہے۔
واپس کریں