دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ترقیاتی منصوبے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری
No image ترقیاتی منصوبوں سے متعلق پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک اور شرط پوری کردی ہے جس کے تحت کوئی ترقیاتی منصوبہ منظوری کے بغیر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کی مجبوری ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے پی ایس ڈی پی کی منظوری ہو یا مالیاتی اصلاحات، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پالیسی میکرز اور بیوروکریسی کو یہ بنیادی اقدامات بھی خود سے کرنے کا ادراک نہیں۔ اگر ہر معاشی اور انتظامی فیصلہ آئی ایم ایف کی ہدایات پر کرنا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری بیوروکریسی، سیاستدان اور ماہرین آخر کس مقصد کے لیے ہیں؟ یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ پاکستان کی بیوروکریسی عوامی وسائل پر بھاری بوجھ ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسران کی مراعات اور تنخواہیں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے افسران سے کم نہیں مگر کارکردگی کے لحاظ سے یہ ایک بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں لگتے۔ دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور سہولیات ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جبکہ انھی بیوروکریٹس کی پالیسیوں کے سبب ملک بار بار معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے۔ اگر معاشی پالیسی سازی میں یہ لوگ ناکام ہیں اور ہر فیصلہ بیرونی قوتوں کے اشارے پر ہو رہا ہے تو پھر ان پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کس جواز کے تحت دیے جا رہے ہیں؟ سیاستدانوں بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ تیسری چوتھی بار حکومت میں آنے والے حکمران ہر بار ہمیں آئی ایم ایف کی دہلیز پر لے جاتے ہیں مگر کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ ہماری معیشت کو خودمختار کیسے بنایا جائے۔ آج اگر ہم مجبور ہو کر آئی ایم ایف کی شرائط مان رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں کی پالیسیوں میں سنگین کوتاہیاں تھیں۔ اگر ان غلطیوں کی وجہ سے ملک کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچا، معیشت جمود کا شکار ہوئی، اور عام آدمی کی زندگی اجیرن بنی تو پھر ان غلطیوں کے ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں ہوتا؟ کیا احتساب صرف عوام کے لیے ہے؟ پالیسی سازوں اور بیوروکریسی سے ان کی کوتاہیوں کا حساب کیوں نہ لیا جائے؟ ملکی ترقی کے لیے محض قرضے لینا کافی نہیں بلکہ اس نظام کی اصلاح بھی ضروری ہے جو ہمیں بار بار انھی مشکلات میں دھکیل رہا ہے۔ صرف آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، ان پالیسی سازوں اور بیوروکریٹس کا احتساب بھی ضروری ہے جو اس ناکامی کے اصل ذمہ دار ہیں۔
واپس کریں