پشاور میں 13 ہزار سے زائد اشتہاری ملزمان، پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

(خالد خان) پشاور، جو خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت ہے، میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح شہریوں کے لیے شدید تشویش کا باعث بن چکی ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق، شہر کے 34 تھانوں میں مجموعی طور پر 13 ہزار 477 اشتہاری ملزمان پولیس کو مطلوب ہیں، جو نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ شہریوں کے عدم تحفظ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق، سب سے زیادہ اشتہاری ملزمان تھانہ چمکنی کی حدود میں موجود ہیں، جہاں ان کی تعداد 1850 تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے بعد تھانہ بڈھ بیر میں 1528، پشتخرہ میں 774، پہاڑی پورہ میں 713، فقیر آباد میں 698، متھرا میں 659، متنی میں 628، حیات آباد میں 548، داودزئی میں 521، گلبہار میں 458، آغا میر جانی شاہ میں 412، ناصر باغ میں 398، خزانہ میں 362 اور مچنی گیٹ میں 267 اشتہاری پولیس کو مطلوب ہیں۔
یہ اعداد و شمار پولیس کی کمزور حکمتِ عملی کو ظاہر کرتے ہیں۔ پشاور میں جرائم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ان اشتہاری ملزمان کی عدم گرفتاری ہے، جو آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں اور مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق، ان میں کئی سنگین جرائم جیسے قتل، ڈکیتی، بھتہ خوری اور دہشت گردی میں ملوث ہیں، مگر ان کی گرفتاری میں درپیش چیلنجز میں جغرافیائی پیچیدگیاں، سیاسی دباؤ اور وسائل کی کمی شامل ہیں۔
پشاور کے شہریوں نے پولیس کی اس کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر صورتحال یہی رہی تو جرائم پیشہ افراد مزید بے خوف ہو جائیں گے۔ بیشتر شہریوں کے مطابق، پولیس صرف چھوٹے مجرموں کو پکڑنے میں مصروف نظر آتی ہے، جبکہ بڑے اشتہاری کھلے عام گھوم رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نے بروقت اقدامات نہ کیے تو شہر میں جرائم کی شرح مزید خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔ اشتہاریوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن، مخبر نظام کو مزید مؤثر بنانے، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور پولیس کی استعدادِ کار میں اضافہ کے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پشاور پولیس واقعی ان اشتہاریوں کو پکڑنے میں کامیاب ہو پائے گی، یا شہری اسی طرح غیر محفوظ حالات کا سامنا کرتے رہیں گے؟
واپس کریں