
انسان ہمیشہ سے علم کو روشنی سمجھتا آیا ہے، ایک ایسا چراغ جو جہالت کے اندھیروں کو چیر کر راستہ دکھاتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ علم صرف چراغ نہیں، ایک ہتھیار بھی ہے— اور جب یہ ہتھیار بے رحم ہاتھوں میں آ جائے تو اندھیروں کو مٹانے کے بجائے، وہ مزید گہرے کر دیتا ہے۔ جیمز میریون سمز ایک ایسا ہی نام ہے، جو جدید گائناکالوجی کا معمار کہلاتا ہے، مگر اس کا علم انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ بن گیا۔
غلامی کے نظام میں پیدا ہونے والے لاکھوں سیاہ فام مرد و عورتیں صدیوں تک اپنے جسموں اور روحوں پر ظلم سہتے رہے۔ یہ لوگ انسان ضرور کہلاتے تھے، مگر ان کے بدن کسی کے ملکیتی اثاثے سمجھے جاتے تھے، ان کی زندگیوں کا کوئی اختیار ان کے اپنے ہاتھ میں نہ تھا۔ انارکا ویسٹکاٹ بھی انہی غلاموں میں سے ایک تھی، جو 17 سال کی عمر میں ایک ایسی تجربہ گاہ بنی، جہاں نہ اس کی چیخوں کی کوئی قیمت تھی، نہ اس کے درد کی کوئی پہچان۔ وہ صرف ایک جسم تھی، ایک خاموش چیز، جس پر ’’تحقیق‘‘ کی جا رہی تھی۔
یہ تحقیق ویسیکووَجائینل فِسٹُلا پر تھی، جو اس دور میں زچگی کے دوران ایک عام مگر تکلیف دہ بیماری سمجھی جاتی تھی۔ اس بیماری میں بچہ دانی اور مثانے کے درمیان ایک سوراخ بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں پیشاب مسلسل خارج ہوتا رہتا ہے، اور عورت کی زندگی اذیت ناک بن جاتی ہے۔ غلام خواتین، جو اکثر کم عمری میں ماں بننے پر مجبور کی جاتی تھیں، اس بیماری کا زیادہ شکار ہوتی تھیں۔ مگر کیا ان کے درد کا علاج ہونا چاہیے تھا، یا وہ محض تجربات کی بھینٹ چڑھنے کے لیے تھیں؟
بغیر اینستھیزیا کے تیس بار سرجری! سوچنا بھی ممکن نہیں کہ یہ کس قدر وحشیانہ عمل تھا۔ مگر وہ جو آپریشن کے آلات ہاتھ میں لیے کھڑا تھا، وہ کوئی ان پڑھ قصائی نہیں، بلکہ ایک تعلیم یافتہ ’’معزز ڈاکٹر‘‘ تھا۔ جس نے میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی، جس نے انسانی بدن کی باریکیوں کو سمجھا، مگر جس کے اندر انسانیت کی روشنی نہیں پہنچی۔ وہ ایک ماہر معالج تھا مگر اس کا علم اخلاقیات اور رحم سے خالی تھا۔ اس کے ہاتھ میں جدید جراحی کے اوزار تھے، مگر اس کا دل قرونِ وسطیٰ کے جلادوں سے بھی زیادہ سنگدل تھا۔
سمز کا فلسفہ یہ تھا کہ سیاہ فام عورتیں درد محسوس نہیں کرتیں، اور اسی بنیاد پر وہ انہیں بے ہوشی کی دوا دیے بغیر چیرتا، کاٹتا اور سِی دیتا۔ ہر بار جب انارکا کا بدن نشتر کی زد میں آتا، وہ درد سے تڑپتی، مگر اس کی چیخیں صرف دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ جاتیں۔ وہ کسی دوا کے بغیر اپنی کھال کٹتے دیکھتی، گوشت ادھڑتے محسوس کرتی، خون بہتا دیکھتی، مگر نہ کوئی روکنے والا تھا، نہ کوئی سننے والا۔
یہ سچ ہے کہ علم حاصل کرنا آسان ہے، مگر انسان بننا مشکل۔ تعلیم کے ادارے انسان کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان تو بنا سکتے ہیں، مگر کیا یہ اُسے ایک بہتر انسان بھی بناتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا، تو وہ شخص جسے آج ’’گائناکالوجی کا باپ‘‘ کہا جاتا ہے، وہ ایک ظالم شکنجہ بردار نہ بنتا، بلکہ وہ انارکا کو بطور ایک زندہ انسان دیکھتا، نہ کہ ایک تجرباتی چوہیا کی طرح! یہی علم جب بے حس ہاتھوں میں آتا ہے، تو یہ مسیحا کو درندہ بنا دیتا ہے۔ علم بذاتِ خود بے گناہ ہے، مگر جب اسے طاقت کے ساتھ جوڑا جائے، تو یہ ظلم کے نئے دروازے کھول دیتا ہے۔ سمز کے نزدیک یہ تجربات گائناکالوجی کی ترقی کے لیے ضروری تھے، مگر کیا کوئی ترقی کسی انسان کے جسم اور روح کی قربانی لے کر جائز ہو سکتی ہے؟
انارکا نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ اس کی تکلیف کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی، اس کی چیخیں ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔ مگر وہ تاریخ میں امر ہو گئی۔ آج اگر کوئی گائناکالوجی کی ترقی پر فخر کرتا ہے، تو اسے یاد رکھنا ہوگا کہ یہ ترقی ایک مظلوم لڑکی کی چیخوں کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اس کی ہمت، اس کا صبر، اس کی تکلیف، وہ اصل سرمایہ ہے جس پر یہ علم استوار ہوا۔ اس لیے اگر گائناکالوجی کا کوئی ’’باپ‘‘ ہے، تو ہمیں اس کی ’’ماں‘‘ بھی یاد رکھنی ہوگی— اور وہ ماں انارکا ویسٹکاٹ ہے۔
یہ کہانی صرف ایک ڈاکٹر کی وحشت یا ایک غلام لڑکی کے دکھ کی نہیں، یہ پوری انسانیت کے لیے ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ طاقت، جب رحم سے خالی ہو جائے، تو وہ تعلیم یافتہ ہاتھوں میں بھی خون آلود ہو سکتی ہے۔ غلامی صرف زنجیروں کا نام نہیں، یہ وہ ذہنی بیماری بھی ہے جو ایک انسان کو دوسرے پر حاکمیت کے زعم میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آزادی محض ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک انسانی ضرورت ہے، اور جب بھی کسی کو غلام بنایا جائے گا، علم بھی بے معنی ہو جائے گا اور ترقی بھی وحشت میں بدل جائے گی۔
یہ تاریخ کا ایک ایسا باب ہے، جسے پڑھ کر شرمندہ ہونا چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی شرمندہ ہوتے ہیں؟ یا ہم آج بھی طاقت کے نشے میں دوسروں کو غلام بنانے کے نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں؟ ہم نے انارکا کی قربانی سے کچھ سیکھا؟ یا آج بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں کوئی نئی انارکا کسی طاقتور کے ظلم کا شکار ہو رہی ہے، اور ہم خاموشی سے سر جھکائے کھڑے ہیں؟
یہ صرف تاریخ کا ایک ورق نہیں، بلکہ ایک سوال ہے— اور یہ سوال ہمیں اس وقت تک گھیرے رکھے گا، جب تک ہم واقعی غلامی کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے، جب تک ہم طاقت کے نشے میں چور ظالموں کو علم اور ترقی کے جھوٹے پردوں میں چھپنے نہیں دیتے، جب تک ہم ہر انسان کی آزادی کو سب سے بڑی نعمت نہیں مان لیتے۔ اس ظلم کو یاد رکھنے کے لیے دنیا بھر کے گائنی وارڈز میں انارکا ویسٹکاٹ کی تصویر آویزاں ہونی چاہیے۔ اس کے نام پر تحقیقاتی مراکز، ہسپتال، اور گائناکالوجی کے ادارے بننے چاہئیں تاکہ آنے والی نسلیں جان سکیں کہ علم اور طاقت کے بیچ کی دیوار رحم اور اخلاقیات ہے، جو گر جائے تو عالم بھی درندہ بن جاتا ہے۔
واپس کریں