مذہبی رہنماؤں کی دھوکہ دہی: کیسے اسلام پسند رہنماؤں نے جہاد کے نام پر پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھی

(تحریر : خالد خان )اکتوبر 1979 میں، سوویت یونین کے باضابطہ حملے سے پہلے، مفتی محمود نے کابل میں جاری کمیونسٹ انقلاب کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ افغانستان کی کمیونسٹ حکومت، جو کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی قیادت میں تھی، نے زرعی اصلاحات، خواتین کے حقوق، اور دیگر ترقی پسندانہ اقدامات متعارف کرائے، جو مذہبی قیادت کے روایتی اقتدار کے لیے خطرہ بن گئے۔ ان اصلاحات کا جواب دلیل اور مکالمے سے دینے کے بجائے مذہبی حلقوں نے اسے کفر قرار دے کر مسلح بغاوت شروع کر دی۔
مفتی محمود کی علالت کے باعث، ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمان کو جنوبی وزیرستان میں علما کے ایک اجتماع میں بھیجا گیا، جہاں افغانستان میں ہجرت اور مسلح جہاد کو اسلامی فریضہ قرار دینے کی باقاعدہ منظوری دی گئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک سیاسی تنازعے کو مذہبی جنگ بنا دیا گیا۔ افغان عوام کی قسمت کا فیصلہ ان مذہبی رہنماؤں نے کیا، جو جدیدیت اور ترقی کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ یہی وہ بنیادی غلطی تھی جس نے افغانستان کو ایسی جنگ میں دھکیل دیا جس میں سوویت مداخلت ناگزیر ہو گئی۔
جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں نے فوری طور پر افغان اسلام پسند گروہوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس تنازعے کو 'مقدس جہاد' قرار دیا۔ پاکستانی پشتونوں، خصوصاً قبائلی علاقوں کے عوام کو اس جنگ میں گھسیٹنے کے لیے مذہبی جذبات کو ہتھیار بنایا گیا۔ مدارس کو نوجوانوں کی برین واشنگ اور بھرتی کے مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ لاکھوں پاکستانی نوجوانوں کو یہ یقین دلا دیا گیا کہ وہ اسلام کے دفاع میں لڑ رہے ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ عالمی طاقتوں کے کھیل کا ایندھن بن رہے تھے۔
مذہبی انتہا پسندی کے اس بیج نے ایک ایسی جنگ کو جنم دیا جس کے اثرات پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والا جہادی نیٹ ورک وقت کے ساتھ ساتھ شدت پسند گروہوں میں بدل گیا۔ مجاہدین، جو کبھی 'ہیرو' سمجھے جاتے تھے، جنگجو سرداروں اور دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق، سوویت انخلا سے پہلے اور بعد میں، ان جہادیوں نے تقریباً 30 لاکھ افغان شہریوں کا قتلِ عام کیا، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔
پاکستان میں، یہ 'جہادی فیکٹریاں' آج طالبان، تحریکِ طالبان پاکستان (TTP)، لشکرِ جھنگوی، اور دیگر بے شمار دہشت گرد تنظیموں کی صورت میں موجود ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو آج پاکستان کے شہریوں، فوج، اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔ وہی مدارس، جو 1980 کی دہائی میں مجاہدین تیار کر رہے تھے، آج خودکش حملہ آور پیدا کر رہے ہیں۔
2000 کے بعد سے، پاکستان میں دہشت گردی کے نتیجے میں 80 ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ملک کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہو چکا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر، وہی مذہبی رہنما جو اس تباہی کے ذمہ دار ہیں، آج بھی منبر و محراب سے اپنے زہر آلود بیانیے کو عام کر رہے ہیں۔
اب، حال ہی میں سامنے آنے والی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات نے اس ساری حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ 2023 میں، امریکہ کے نیشنل سیکیورٹی آرکائیو نے انتہائی خفیہ ریکارڈز جاری کیے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان جہاد کو واشنگٹن میں منصوبہ بندی کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ ان دستاویزات کے مطابق، امریکی صدر جمی کارٹر نے پاکستان کے ذریعے افغان جنگ میں مداخلت کی منظوری دی۔ سی آئی اے نے اس مہم کے لیے 2.1 ارب ڈالر فراہم کیے، جبکہ سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر کا تعاون کیا۔
یہ فنڈز پاکستان کے ذریعے مجاہدین کو فراہم کیے گئے، جہاں پاکستانی انٹیلیجنس اداروں اور مذہبی گروہوں نے مل کر ان جنگجوؤں کو بھرتی کیا، تربیت دی، اور مسلح کیا۔ ان دستاویزات سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ جہادیوں کو جدید ہتھیاروں کی تربیت افغانستان سے باہر فراہم کی گئی، جو براہ راست مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں یا دوسرے ممالک کے ذریعے دی جاتی رہی۔
یہ جنگ کسی بھی لحاظ سے 'اسلام' یا 'مسلمانوں کے دفاع' کی جنگ نہیں تھی، بلکہ سرد جنگ کے دوران امریکہ کی سوویت یونین کو کمزور کرنے کی ایک چال تھی۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان مسلمان ممالک اور عوام نے اٹھایا، جبکہ عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات حاصل کر لیے۔
جمی کارٹر، جن کی انتظامیہ نے اس جنگ کا آغاز کیا، 2024 کے اواخر میں 100 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مگر ان کے چھوڑے گئے زخم آج بھی پاکستان اور افغانستان کو لہولہان کر رہے ہیں۔ تاہم، اصل مجرم وہ مذہبی رہنما تھے جنہوں نے ایک بیرونی جنگ کو 'مقدس جہاد' بنا کر اپنی قوم کے لاکھوں نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
آج، پاکستان دہشت گردی کے دائرے میں قید ہے۔ خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ، اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری روز کا معمول بن چکے ہیں۔ جب بھی ریاست ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کرتی ہے، مذہبی جماعتیں سڑکوں پر نکل آتی ہیں اور سیاسی دباؤ ڈال کر شدت پسندوں کی حمایت کرتی ہیں۔ جو علماء کبھی افغانستان میں جہاد کے لیے لوگوں کو بھیج رہے تھے، آج خود پاکستان میں دہشت گردوں کو بچانے میں مصروف ہیں۔
یہ جنگ 'جہاد' نہیں تھی، بلکہ ایک دھوکہ تھا—ایسا دھوکہ جو مغربی طاقتوں نے دیا، مگر اس میں سب سے بڑا کردار ان مذہبی رہنماؤں کا تھا جو اپنے سیاسی عزائم کے لیے مذہب کو استعمال کرتے رہے۔ افغان جہاد کبھی بھی اسلام کے دفاع کی جنگ نہیں تھی، بلکہ طاقت، مفاد، اور اندھی تقلید کی ایک خوفناک مثال تھی۔ آج پاکستان اسی انتہا پسندانہ سوچ کی بھینٹ چڑھ رہا ہے، اور یہ زخم شاید کبھی مندمل نہ ہوں۔
واپس کریں