الاسد حکومت کا خاتمہ: مشرق وسطیٰ میں آگے کیا ہونے والا ہے؟اشرف جہانگیر قاضی
ہینری کیسنجر کے بقول، ’عرب مصر کے بغیر جنگ نہیں کرسکتے جبکہ شام کے بغیر وہ امن قائم نہیں کرسکتے‘۔پہلی بار سفارتی اسائنمنٹ پر مجھے شام میں تعینات کیا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ مجھے شام اور اس کے لوگوں سے انسیت سی ہے۔ میرا استقبال کرتے ہوئے ایک شامی اہلکار نے کہا، ’آپ نے مصر میں اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ زیادہ دلکش ہے، ہم زیادہ ایماندار ہیں‘۔ شام کے لوگوں کے اس قول میں کسی حد تک صداقت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے مصر اور مصر کے باسیوں سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ شام اور اس کے باسیوں سے ہے۔
دمشق جسے دنیا کا قدیم ترین دارالحکومت کہا جاتا ہے، میں وہاں اس وقت پہنچا کہ جب صدر حافظ الاسد نے اپنی علوی رجیم کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کی لہر کو دبانے کے لیے حماہ شہر کو تباہ کیا تھا۔ وہ ایک بے رحم حکمران کے ساتھ ساتھ حکمت عملی تشکیل دینے میں ماہر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1971ء میں عرب-اسرائیل جنگ کے بعد ہینری کیسنجر کی کوششوں سے مصر، اسرائیل کے فرنٹ لائن مخالف کے طور پر منظرنامے سے ہٹ گیا تو حافظ الاسد کی قیادت میں شام عرب ممالک میں اسرائیل کا سب سے بڑا مخالف بن کر سامنے آیا۔ اگرچہ ہینری کیسنجر اور حافظ الاسد کے تصورات ایک دوسرے سے متصادم تھے لیکن وہ حافظ الاسد کی اسٹریٹجی کے مداح تھے۔
شام پر علوی کی 53 سالہ دورِ حکمرانی کے بعد اچانک اس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب یہ لوگوں کے نظریے پر منحصر ہے کہ آیا دمشق زوال پذیر ہوا ہے یا پھر یہ آزاد ہوگیا ہے۔ درحقیقت یہ دونوں باتیں ہی اپنی جگہ کسی حد تک درست ہیں۔
دمشق جو عرب میں امریکا اور اسرائیل کے تسلط کے خلاف وقار اور مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا تھا، بلاشبہ حالیہ پیش رفت اس کے زوال کے مترادف ہے۔ والد اور بیٹے کی علوی حکومت (شام میں علوی اقلیت میں ہیں) کہ جس میں وحشیانہ جبر دیکھا گیا، اختتام پذیر ہونے کے تناظر میں دمشق واقعی آزاد ہوا ہے۔
کچھ کے لیے دھچکا، کچھ کے لیے فائدہ
اس میں کوئی دو رائے نہیں شام میں باغیوں کی فتح سے امریکا، اسرائیل، ترکیہ اور سعودی عرب کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ یہ روس، ایران اور فلسطین کے لیے دھچکا ہے۔ اس پیش رفت کے مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
شام میں باغیوں کی جیت کو ترکیہ اور اس کے صدر رجب طیب اردوان کی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ترکیہ کا شام کے شمال مشرق کے کرد علاقے پر کافی اثر و رسوخ ہے اور ممکنہ طور پر حیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے ساتھ بھی اس کے روابط ہیں جو القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کے بعد اسلامی قوم پرست تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔
رجب طیب اردوان اب شامی پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک بھیجیں گے اور ایک جمہوری ملک کے طور پر ترکیہ کوشش کرے گا کہ حیات التحریر الشام آمرانہ طرزِ حکرانی سے گریز کرے۔ اس اثنا میں ترکیہ کو شاید سعودی عرب کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو سنی حکومتوں کا بڑا حامی ہے لیکن ولی عہد محمد بن سلمان کے ماتحت وہ سلفی نظریے سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
شام کی صورت حال کے ایران اور حزب اللہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ شام پر ایران کا اثر و رسوخ اور حزب اللہ کے ذریعے شام کا لبنان پر اثر و رسوخ، وہ محرکات تھے جو خطے میں بالادستی قائم کرنے میں امریکا کی راہ میں رکاوٹ تھے جبکہ یہ اسرائیل کے ساتھ عسکری مزاحمت کرتے تھے۔ فلسطینیوں پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ وہ کافی حد تک ایسے فریقین کی مدد پر انحصار کررہے ہیں جنہیں حالیہ پیش رفت میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لیکن اس پورے منظرنامے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر متوقع حالات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس پیش رفت سے متعلق ان کا پہلا ردعمل یہی تھا کہ امریکا کو شام کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بیان شاید انہوں نے ولادیمیر پیوٹن کے احترام میں دیا ہو یا اس کے پیچھے یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ خطے میں حماس تنہا ہوچکا ہے کیونکہ وہ عناصر کمزور پڑ چکے ہیں جن کے سہارے وہ مزاحمت کو برقرار رکھ سکے، ایسے میں ٹرمپ شاید اسرائیل کو غزہ میں جنگ بندی کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں۔
اسرائیل اس وقت مضبوط ترین پوزیشن میں ہے اور وہ نہ ختم ہونے والی عسکری جارحیت پر امن کو ترجیح دے سکتا ہے۔ اگر اسرائیل امن کی راہ چنتا ہے تو اس سے ابراہم معاہدے کی بحالی ہوگی جس کے ذریعے عرب ممالک اپنے عوام کو فلسطین کے معاملے پر کسی بھی اقدام سے روک سکتے ہیں۔
اقتدار کا کھیل
وسیع تر جغرافیائی سیاسی صورت حال مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر کے واقعات کو بھی متاثر کرے گی۔ حالیہ برسوں میں امریکا کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے حریف ممالک جیسے ماسکو، تہران اور دمشق میں حکومتیں تبدیل کرے۔ اب وہ شام میں حکومت کا تخت الٹنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ اب امریکا اپنی حالیہ کامیابی کے بعد ان تمام ممکنہ محرکات کا جائزہ لے گا جن کو بروئے کار لا کر وہ روس میں حکومت کو تبدیل کرسکے۔
یوکرین جنگ میں مصروف روس بشار الاسد کی مدد کو نہ آسکا، اس نے ظاہر کیا کہ روس کسی حد تک کمزور ہوا ہے۔ شام کی حالیہ پیش رفت پیوٹن کے لیے مشکل حالات پیدا کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران جس طرح لبنان میں حزب اللہ کو معاونت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے، اس نے روس کی شرمندگی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ ٹرمپ مبینہ طور پر ولادیمیر پیوٹن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ انہیں مزید شرمندگی سے بچا لیں گے۔ لیکن اس حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ تاہم پیوٹن کے لیے نرم گوشہ رکھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسے بااثر رہنماؤں کو پسند کرتے ہیں جو طاقتور ہوتے ہیں، ایسے رہنماؤں کو نہیں جن کے ہاتھوں سے اقتدار پھسل رہا ہو۔
الاسد خاندان کی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ شام میں روس کے فوجی اڈے ممکنہ طور پر ختم ہوجائیں گے جبکہ ٹرمپ کی شام کے معاملے میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے روس شام سے اپنی فورسز کے انخلا پر مجبور ہوجائے گا۔ یوں وہ یوکرین پر زیادہ توجہ دے پائے گا جس سے یوکرین میں اس کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔ اس سے ٹرمپ کی حمایت سے منسک معاہدہ دوبارہ فعال ہوسکتا ہے جو روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ، پیوٹن سے چینی صدر شی جن پنگ سے دوری اختیار کرنے کو کہیں گے، پیوٹن ایسا نہیں کریں گے تو انہیں قیمت چکانا پڑے گی۔
دوسرا سب سے اہم یہ سوال ہے کہ چین حالیہ ڈرامائی پیش رفت کے حوالے سے کیا ردعمل دے گا؟ چین واقف ہے کہ امریکا کی اصل اسٹریٹجک کامیابی یہی ہے کہ چین امریکا کی عالمگیریت کو تسلیم کرے اور اسے چیلنج نہ کرے۔
چین امریکا کی عالمگیریت کو تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چین کا معاشی اثرورسوخ امریکا پر منحصر ہے۔ تاہم چین زیادہ عرصے تک مشرق وسطیٰ کی پیش رفت کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتا۔ جب ان پیش رفت کے اثرات اس کے قریبی ممالک پر مرتب ہوں گے تو چین کو کوئی نہ کوئی ردعمل دینا ہوگا۔
مسلم دنیا میں پاکستان سب سے بڑ املک ہے لیکن ملک کو درپیش واضح مسائل کی وجہ سے اس کا اثرورسوخ سب سے کم ہے۔ تاہم شام میں علوی آمرانہ حکومت کے اختتام نے ظاہر کیا ہے کہ جب حکومتیں عوام کی حمایت کھو دیتی ہیں تو اسی طرح اچانک زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ جیسا کہ اسکاٹش فلسفی ڈیوڈ ہیوم نے برسوں پہلے مشاہدہ کیا تھا کہ باشعور متحد عوام کی قوت، کسی بھی فوج سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔
واپس کریں