دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نوجوان پاکستان سے کیوں بھاگنا چاہ رہے ہیں؟نصرت جاوید
No image 1980ء کی دہائی سے بیرون ملک جانا شروع ہوا تھا۔ ایک مرتبہ بھی سیرسپاٹا مقصود نہیں تھا۔ جب بھی گیا پیشہ وارانہ امور ہی نبھانے کے لیے گیا۔ اسی باعث کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ پاکستانیوں کے لیے امریکا اور یورپ کے کئی ممالک کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ’برادر‘ ملکوں سے بھی ویزے کا حصول بتدریج کیوں اور کیسے مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے۔
اپنے اور دوستوں کے بچوں کی بدولت ’تازہ خبر‘ اب یہ آرہی ہے کہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کی اکثریت اپنے والدین کو مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنی بچائی رقوم یا دیگر اثاثہ جات کو ہر صورت بروئے کار لاتے ہوئے انھیں بیرون ملک ’اعلیٰ تعلیم‘ کے لیے بھجوائیں۔ محض تعلیم کا حصول ہی ان کی خواہش ہوتی تو والدین اس قدر پریشان نہ ہوتے۔ یہ سوچ کر مگر دہل جاتے ہیں کہ بیرون ملک جانے کو بضد بچے پاکستان کی مٹی ایک بار پھر چھوڑ کر یہاں واپس آنا نہیں چاہ رہے۔ والدین تو لاشعوری طورپر ان بچوں کو اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھ کر پال رہے ہوتے ہیں۔
والدین کی فکر کو شاید میں سنجیدگی سے نہ لیتا۔ چند دن قبل مگر برطانیہ سے آئے ایک دوست سے لمبی ملاقات ہوگئی۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے گھبراکر وہ 1980ء کی دہائی میں برطانیہ چلے گئے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے مواقع ڈھونڈتے رہے۔ بالآخر برطانیہ کی ایک مشہوریونیورسٹی میں سکالرشپ پر داخلہ مل گیا۔ نہایت محنت اور لگن سے انھوں نے تاریخ اور علم سماجیات کے چند اچھوتے پہلو ڈھونڈے۔ ان کے بارے میں تحقیقی مقالے لکھ کر عزت کمائی۔ اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کے سماجی رویوں پر عالمانہ نگاہ رکھنا مگر ان کی عادت بن چکی ہے۔
یہ انکشاف کرتے ہوئے انھوں نے مجھے چونکا دیا کہ حال ہی میں وہ برمنگھم اور مانچسٹرکے جن ریستورانوں میں گئے وہاں ویٹروں کی اکثریت پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ تحقیق کے عادی دوست نے ان کے ساتھ گپ شپ لگانے کے بعد دریافت یہ بھی کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ آئے تھے۔ جس ڈگری کی طلب تھی وہ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ پاکستان اس کے باوجود لوٹنا نہیں چاہ رہے۔ کسی نہ کسی بہانے برطانیہ میں اپنے قیام کو طول دینے کے لیے ہر جائز وناجائز حربہ اختیا کرنے کو تیار ہیں۔
میری دوبیٹیاں ہیں۔ بیٹی کے والدین ذہنی طورپر یہ طے کرلیتے ہیں کہ آخر اس کو ’اپنا گھر‘ بسانا ہوگا۔ اسے ’پرایا دھن‘ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود گھر میں اکیلا بیٹھا ہوں تو اکثر ملال کے ساتھ یہ سوچنا شروع ہوجاتا ہوں کہ میں نے اور میری بیوی نے تمام عمر کی جدوجہد کے بعد جو مکان بنایا ہے وہ ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ بڑا اور کشادہ ہے۔ ہم دونوں کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہورہا ہے۔ لاشعوری طورپر یہ سوچتے ہوئے بنایا تھا کہ شادیاں ہوجانے کے بعد ہماری بچیاں زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزارا کریں گی۔ ہم نواسے، نواسیوں سے کھیلاکریں گے۔
یہ امید اس وجہ سے پروان چڑھی کیونکہ 1990ء کی دہائی کے آغاز سے ہمیشہ ایسا مکان کرائے پر لینے کے لیے تلاش کیا جو میرے سسرال کی رہائش سے دس منٹ سے زیادہ کی مسافت پر نہ ہو۔ میں اور میری بیوی اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے گھر چھوڑتے تو بچیوں کو ان کی میڈ سمیت نانا،نانی کے پاس چھوڑ جاتے۔ بچیوں کو درحقیقت ان دونوں ہی نے پالا اور اس کے باعث ہمیشہ بہت طمانیت بھی محسوس کی۔ نہایت دُکھ کے ساتھ تاہم مجھے یہ خدشہ لاحق ہورہا ہے کہ میری نسل اور طبقے کی بے پناہ اکثریت بڑھاپے میں اپنے نواسے،نواسیوں اور پوتوں،پوتیوں کے ساتھ جی کو طمانیت بخشتا وقت نہیں گزار پائے گی۔
ذاتی مشاہدات وتجربات کا ذکر بنیادی طورپر یہ التجا کرنے کو کیا ہے کہ ہمارے حکمران اور پالیسی ساز سنجیدگی سے سوچیں کہ ہمارے نوجوان امید کیوں کھوچکے ہیں۔ وطن عزیز کو نسبتاً خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے بہانے چھوڑنے کے بعد یہاں لوٹنے کو آمادہ کیوں نہیں۔ جو سوال میں اٹھارہا ہوں وہ اس شدت سے ریگولر اور سوشل میڈیا میں زیر بحث نہیں آرہا جس کی مجھے توقع تھی۔ بس ایک فقرہ کہتے ہوئے گل مکادی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ’ہمارے نوجوان ملک سے بھاگنے کے بہانے اور راستے ڈھونڈ رہے ہیں‘۔ ذمہ دار اُن کی خواہش کا محض اس ’تبدیلی‘ کو ٹھہرایا جارہا ہے جو عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں رونما ہوئی تھی۔ میری دانست میں معاملہ مگر اتنا سادہ نہیں ہے۔
پاکستانیوں کی بیرون ملک نقل مکانی کا رحجان کئی دہائیوں سے جاری ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں میں آباد متوسط طبقے نے اس کو فکر مندی سے نہیں لیا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد برطانوی معیشت کی بحالی کے لیے انگلینڈ جانے والوں کی اکثریت مزدور طبقات پر مشتمل تھی۔ یہی عالم 1970ء کی دہائی میں روزگار کے لیے مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ملک جانے والوں کے حوالے سے رہا۔
1990ء کی دہائی کے وسط سے مگر کراچی کے مخصوص حالات کے سبب شہری متوسط طبقے کی کثیر تعداد امریکا اور کینیڈا کا رخ کرنے لگی۔ پاکستانی ڈاکٹروں کی ایک خاطر خواہ تعداد بھی امریکا آباد ہوچکی تھی۔ جو رحجان مگر اب شروع ہوا ہے وہ ہر حوالے سے ’برین ڈرین‘ ہے۔ مختلف النوع صلاحیتوں سے مالا مال نوجوان اپنی ذہانت کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان میں امکانات ڈھونڈہی نہیں پارہے۔ عبوری حکومت کے وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی طرح کندھے اچکا کر اس رحجان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سوچنا بھی انتہائی خود غرضی ہے کہ بیرون ملک سیٹل ہوجانے کے بعد نوجوان پاکستان میں آباد رشتے داروں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ ان کی بھیجی رقوم پاکستانی معیشت کو رواں رکھتی ہے۔
تارکین وطن کی بھیجی رقوم کے بارے میں مطمئن محسوس کرتے افراد کے لیے بری خبر یہ بھی ہے کہ پڑھے لکھے متوسط طبقات کے نوجوان امریکا اور یورپ کے ملکوں میں سیٹل ہوجانے کے بعد اپنے والدین کو پاکستان چھوڑ کر اپنے ہاں رکھنا چاہ ر ہے ہیں۔ بوڑھے والدین کو مسلسل اکسایا جارہا ہے کہ وہ آبائی گھر وغیرہ بیچ دیں اور بیرون ملک بچوں کے پاس منتقل ہوکر نواسے ،نواسیوں اور پوتے،پوتیوں سے کھیلیں۔ ریٹائرمنٹ کی زندگی خوشگوار ماحول میں انجوائے کریں۔ ہمیں پاکستان ہی کو آباد اور خوش خرم رکھنے کی تراکیب سوچنا ہوں گی۔
واپس کریں