دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان پر اعتماد کیا ہی نہیں جا سکتا،وہ خود کو واقعی وزیراعظم سمجھنے لگتے ہیں۔
No image احمد نورانی ۔فرض کریں معاملات طے پا جائیں۔ شہباز شریف کو گھر بھیج کر دوبارا الیکشن ہو جائے۔ عمران خان بھی باہر ہوں۔بلے کا نشان بھی مل جائے۔ کروڑوں لوگ گھروں سے باہر بھی نکل آئیں۔ سب عمران خان کےامیدواروں کو ووٹ بھی ڈال دیں۔تب بھی پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں صفر ہوں گی۔ ایک آدھی نشست دینےکی غلطی بھی نہیں ہو گی۔
فوج سے آٹھ فروری کو اندازے کی ایک غلطی ہو گئی۔ غلطی ہو جاتی ہے۔ ایسی غلطی انہوں نے ماضی میں کبھی نہ کی تھی۔ ہمیشہ صفائی سے کام کرتے تھے۔ نظر اندھے کو بھی آ رہا ہوتا تھا مگر ثابت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ فوج ایسی غلطی دوبارا کر ہی نہیں سکتی۔ آٹھ فروری کو ہونے والی اس غلطی کی وجہ بھی ن لیگی بدھو تھے جو سمجھ رہے تھے کہ انہیں ووٹ پڑے گا۔ اور فوجیوں کو بھی یہی بتا رہے تھے۔
عمران خان پر اعتماد کیا ہی نہیں جا سکتا۔ وہ اپنی مرضی کرتے ہیں اور خود کو واقعی وزیراعظم سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ بات فوج میں عمران خان کے حمائتی بھی سمجھ چکے ہیں۔ عمران خان کا رسک دوبارا نہ لینے کا فیصلہ وہ کر چکے ہیں جسے صرف بے مثال عوامی تحریک سے ہی بدلا جا سکتا ہے۔ چنانچہ دوبارا الیکشن کی باتوں میں آنا ہے تو شوق سے آئیے۔
پی ٹی آئی عوام میں جتنی بھی مقبول ہے یہ میٹر ہی نہیں کرتا۔ پاکستان ایک آزاد ملک نہیں ہے۔ قابض حکمران انگریز فوج قبضہ فوج کو ہی دے کر گئی تھی۔ بھارت کے برعکس، پاکستان میں عوام حکمران فوج سے اقتدار واپس نہیں لے سکے۔ جمہوریت یا انتخابات کا کوئی نظام نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کا ادارہ وجود تک نہیں رکھتا۔ ایسے میں ایک سیاسی جماعت کی ملک کے تمام حصوں میں بے پناہ مقبولیت فضول اور غیر متعلقہ بات ہے۔
پی ٹی آئی کے زندہ بچ جانے کا واحد راستہ آٹھ فروری کے انتخابات کا درست اعلان ہے۔ عوامی تحریک سے ہی فوجی فیصلے کو بدل کر عوامی فیصلہ نافذ کروایا جا سکتا ہے۔ کہ جس دن اعلان ہو اس دن سے پانچ سال کا عرصہ شروع ہو۔ حکومت میں آ کر فوج سے اختیارات عوامی حمایت سے واپس لیے جائیں، ماضی کی غلطیاں دہرائے بغیر آئین کی حکمرانی کے قیام کی بھر پور کوشش کی جائے۔ آئین کے تابع کام کرنے والے اداروں کو ساتھ لے کر چلا جائے اور ایک بہتر نظام قائم کیا جائے۔
دوبارا انتخابات کا ایک ہی مطلب ہے۔ عمران خان کی ایک مرتبہ رہائی کے مناسب وقفہ کے بعد د و با ر ا گر فتا ر ی ۔ اور ایک ایسے الیکشن کا انعقاد جس میں دھاندلی کا کوئی ثبوت نہ بچے۔ یعنی پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال کر پولنگ اسٹیشن کے اندر ہی فارم پنتالیس بغیر کسی کٹنگ کے خوشخطی کے ساتھ تیار ہوں اور فارم پنتالیس اور فارم سنتالیس میں کوئی فرق نہ ہو۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے بیدار ڈاٹ کام کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
واپس کریں