دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئی ایم ایف سے چھٹکارا۔۔۔
No image کہتے ہیں فرانس سے آزادی کے بعد کانگو میں فرانس نے اپنا سفیر تعینات کیا۔ ایک دن فرانسیسی سفیر شکار کی تلاش میں کانگو کے جنگلات میں نکل گیا۔ چلتے چلتے فرانسیسی سفیر کو دور سے کچھ لوگ نظر آئے۔ وہ سمجھا شاید اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہیں۔ قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک آدم خور قبیلہ ہے.۔۔ چنانچہ فرانسیسی سفیر کو پکڑ کر انہوں نے ذبح کیا، اسکی کڑاہی بنائی اور جنگل میں منگل کر دیا.
فرانس اس واقعے پر سخت برہم ہوا اور کانگو سے مطالبہ کیا کہ سفیر کے ورثاء کو کئی ملین ڈالر خون بہا ادا کیا جائے۔ کانگو کی حکومت سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ خزانہ خالی تھا۔ ملک میں غربت و قحط سالی تھی۔ بہرحال کافی غوروخوض کے بعد کانگو کی حکومت نے فرانس کو ایک خط لکھا جس کی عبارت درج ذیل تھی:

کانگو کی حکومت محترم سفیر کے ساتھ پیش آئے واقعے پر سخت نادم ہے۔ چونکہ ہمارا ملک خون بہا ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، لہذا غور و فکر کے بعد ہم آپ کے سامنے یہ تجویز رکھتے ہیں کہ ہمارا جو سفیر آپ کے پاس ہے ، آپ بدلے میں اسے کھا لیں۔ شکریہ۔

اس واقعے میں کتنی صداقت ہے ، یہ تو نہیں معلوم ، لیکن پاکستانی عوام کے لئے ایک سبق ضرور ہے اور وہ یہ ک انہیں آئی ایم ایف کو ایک خط لکھنا چاہیے جس کا مضمون درج زیل ہو:
پچھلے ستر سالوں میں ہماری حکومتوں نے جو قرضے لئے ہیں ، کم و بیش سارے کے سارے ، ہماری اشرافیہ اور سیاست دانوں، بیوروکریٹس کے ذاتی اکاؤنٹس میں آپ ہی کے بینکوں میں پڑے ہیں ، لہذا تجویز ھے کہ ہماری اشرافیہ کے بنک بیلنس اور اثاثے جو آپ ہی کے ممالک میں ہیں ، اپنے قرض کے بدلے آپ ان سب کو کھا لیں۔ شکریہ۔
واپس کریں