دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ڈیپ فیک ویڈیوز ہوتی کیا ہیں؟
No image ڈیپ فیک (Deepfake) مصنوعی ذہانت کے ذریعے ترمیم شدہ اور تخلیق کردہ ویڈیوز ہیں، جو پہلی بار 2017 میں سامنے آئی تھیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈیپ فیک بنانے کے تین طریقے ہیں۔ پہلے طریقے میں چہرے کی تبدیلی شامل ہے، جہاں ایک شخص کا چہرہ دوسرے کے جسم پر لگایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ نسبتاً آسان ہے اور ایسی ایپلی کیشنز کا استعمال کرتے ہوئے کیا جا سکتا ہے جو مختصر ویڈیوز استعمال کرتی ہیں، جیسے سنیپ چیٹ، ری فیس یا فیس میجک وغیرہ۔ دوسرے اور زیادہ پیچیدہ طریقے میں چہرے کو ازسرنو بنانا (Face Reenactment) شامل ہے۔ سٹوڈیو میں ایک اداکار اصل شخص کی حرکات و سکنات اور چہرے کی نقل کرتا ہے اور پھر اس کی بنا پر ویڈیو بنائی جاتی ہے جس میں اداکار کے الفاظ ہوتے مگر چہرہ اور تاثرات اصل شخص کے جو وہی باتیں کہتے سنا جا سکتا ہے۔
تیسرے طریقے میں ہونٹوں کی جنبش کو ایسے الفاظ میں ڈھالا جاتا ہے کہ وہ کسی شخص کے چہرے پر لگا دیے جائیں تو وہ شخص جنبش والے الفاظ کہتا دکھائی دیتا ہے حالانکہ اصل میں اس نے وہ الفاظ نہیں کہے ہوتے۔ڈیپ فیک کے ان تینوں طریقوں میں مصنوعی ذہانت استعمال ہوتی ہے، جو اصل شخص کی آڈیو اور ویڈیو کو فرضی روپ میں ڈھال دیتی ہے۔ ڈیپ فیک ایپ میں جتنی زیادہ معلومات ڈالی جائیں، اس کے نتائج اتنے ہی حقیقت کے قریب ہوتے ہیں۔اس تکنیک کو فلموں میں اداکاروں کو کم عمر دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات دھوکہ دہی یا کسی کو بلیک میل کرنے کے لیے بھی ڈیپ فیک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
حالیہ سالوں میں سیاسی اور مشہور شخصیات کی بھی ڈیپ فیک ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔2018 میں امریکی اداکار اور مصنف جارڈن پیل نے سابق صدر امریکی براک اوباما کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو بنائی، جس میں وہ اپنے بعد صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں غیر اخلاقی الفاظ استعمال کرتے نظر آئے۔ یہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی اور اسے لاکھوں لوگوں نے شیئر کیا۔ ٹیکنالوجی میگیزن دا ورج کے مطابق جورڈن پیل کی پروڈکشن کمپنی کے تحت بنائی گئی اس ویڈیو میں ایڈوب آفٹر ایفیکٹس اور مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے والا ٹول ’فیک ایپ‘ استعمال کرتے ہوئے اوباما کے منہ سے وہ باتیں کہلوائی گئیں جو انہوں نے نہیں کہی تھیں۔ یعنی چہرہ، آواز اور تاثرات ان کے مگر ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کسی اور کے۔
اگرچہ ماہرین مصنوعی ذہانت کے ذریعے کی گئی جعل سازی کی پہچان کے لیے ٹولز بنانے پر کام کر رہے ہیں لیکن ’فیک نیوز‘ اور ’غلط معلومات‘ کے اس دور میں لوگوں پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ وہ میڈیا یا سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے سمجھداری کا مظاہرہ کریں یعنی میڈیا سیوی (Media savvy) بنیں اور اصل اور جھوٹ کی پہچان کرنے کا سلیقہ سیکھیں۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈیپ فیکس کے جمہوریت کو خطرے براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ ہوسکتے ہیں، کیونکہ اس سے یہ خطرہ ہے کہ شہری غلط معلومات پر بھروسہ کر سکتے اور خبروں کے ذرائع پر بھروسہ کھو بھی سکتے ہیں۔
عالمی سطح پر نام نہاد ‘ڈیپ فیک ٹیکنالوجی‘ کے استعمال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ ایمسٹرڈم کی سکیورٹی فرم ڈیپ ٹریس کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ اس فرم نے اس ٹیکنالوجی سے بچاؤ کے لیے خدمات فراہم کرنے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا ہے۔ اس رپورٹ کی مطابق اس ٹیکنالوجی کو خاص طور پر فحش فلمیں تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے خاص طور پر کسی برہنہ خاتون یا مرد کا چہرہ ایسی مہارت سے کسی دوسرے چہرے کے ساتھ بدل دیا جاتا ہے کہ دیکھنے میں وہ دوسری شخصیت ہی ویڈیو کا مرکزی اور اصلی کردار معلوم ہوتی ہے۔
بہرحال پاکستانی سیاست میں اگر اس ٹیکنالوجی کا استعمال آ گیا تو اس کے نتائج بہت ہی بھیانک ہوں گے کیونکہ مرد سیاستدان تو ایک طرف اس سے خواتین سیاستدانوں کی عزت کو بھی چند منٹوں میں اچھالا جا سکے گا۔ اس سے قبل کہ اس طرح کی مذموم کوشش کی جائے حکومت کو اس طرح کی ٹیکنالوجی کے لیے فوری طور پر ایکٹ منظور کرانا چاہیے اور اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کرنی چاہئیں۔
شفقنا اردو
واپس کریں