امام صافی
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان پختونوں کے ووٹ سے وزیر اعظم بنا ہے، وہ غلط سمجھتے ہیں۔ پختونوں کے ووٹ سے وزیر اعظم بننا ہوتا تو اسفندیار ولی خان یا مولانا فضل الرحمن بن جاتے۔ پاکستان میں حکومت بنانے کے دو لازمی عناصر پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ ہیں۔
تاہم پختونوں نے عمران خان کو سپورٹ کیا اور خوب کیا۔ تبدیلی کے الٹا پڑ جانے، عمران خان کی بد ترین نا اہلی و ناکامی اور پی ٹی آئی کی دگرگوں حالت کے باوجود تاحال یہ سپورٹ جاری ہے۔ اور یہ سپورٹ بلا وجہ ہرگز نہیں ہے۔ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔
مشرف دور سے شروع ہونے والی پختونوں کی بدبختی نواز شریف کے دور تک جاری رہی۔ اس دور میں ہزاروں پختون شہید ہوئے، ہزاروں لاپتہ ہوئے، ان کے کاروبار ختم ہوگئے، گھر تباہ ہوگئے۔ فاٹا کے پختون بالخصوص اور تمام ملک کے پختون بالعموم حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے۔ ہر چوک چوراہے پر انھیں پکڑا گیا، تنگ کیا گیا، بے عزت کیا گیا۔ انھیں کاروبار کرنے میں مشکلات سے دو چار کیا گیا۔ داڑھی، پگڑی، ٹوپی اور چادر کو بدنام کیا گیا۔ روایتی پختون برقعے کو دہشت کی علامت بنا دیا گیا۔ شناختی کارڈ بلاک کیے گئے۔ حتی کہ غیر پختون، پختونوں کو کرائے پر مکان دیتے بھی جھجھکتا تھا۔ اس تمام عرصہ میں عمران خان حکومت سے باہر پختونوں کے حق میں آواز اٹھاتا رہا۔
مالاکنڈ آپریشن کے دوران ملک کی خاطر گھر بار چھوڑ کے اندرون ملک مہاجر ہونے والے پختونوں نے جب پنجاب کا رخ کیا تو شہباز شریف نے بیان دیا کہ ان آئی ڈی پیز کو پختونخواہ میں ہی کیمپوں میں رکھا جائے اور اٹک کا پل پار نہ کرنے دیا جائے۔
کیوں؟ کیا پختون پاکستانی نہ تھے؟ یا اٹک کے پل کے اس پار پاکستان نہ تھا؟
آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا تو رانا ثناء اللہ نے بیان دیا کہ پنجاب بھر میں پختون پاکٹس کو اس آپریشن میں ٹارگٹ کیا جائے گا۔
اور پھر ایسا کیا بھی گیا۔
ایک بار پھر ملک بھر میں، اور خاص طور پر پنجاب میں پختونوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار پھر پختونوں کے تشخص کو بدنام کیا گیا۔ ہر چوک، ہر بازار میں پختونوں کو پکڑا گیا، ذلیل کیا گیا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا۔ پنجاب کے بازاروں میں ایسے پوسٹر پھیلائے گئے کہ جن پر لکھا گیا تھا کہ پختونوں پر نظر رکھیں، انھیں کاروبار مت کرنے دیں۔
مین سٹریم میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر پختونوں کے خلاف ایسا پروپیگنڈا کیا گیا کہ پختون کو عفریت کی شکل دے دی گئی۔
جب پانامہ کے معاملے نے زور پکڑا تو عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے چوہدری نثار علی خان نے افغان مہاجرین کے خلاف آپریشن کے نام پر ملک بھر میں پختونوں کو نشانہ بنایا۔ پختونوں کے شناختی کارڈ انکوائری میں ڈالے گئے۔ ہر چوک چوراہے پر شناخت کے نام پر پختونوں کی پکڑ دھکڑ کی گئی۔ پختونوں کو اتنا بدنام کیا گیا کہ نہ کوئی ان کو مکان کرائے پر دیتا تھا اور نہ کوئی پختونوں کی پراپرٹیز خریدنے پر تیار ہوتا تھا۔ حتی کہ پختونوں کی پانچ پارٹیوں جمعیت علماء، جماعت اسلامی، اے این پی, پی کے میپ اور قومی وطن پارٹی کو پختونوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانی پڑی۔
ان سب باتوں نے پختونوں کے دلوں میں ن لیگ کے خلاف نفرت بھر دی۔ اور یہ نفرت انھیں عمران خان کی طرف لے گئی۔ یوں پختون علاقوں میں عمران خانی جڑ پکڑ گئی۔
آج بد ترین حکومت داری، مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری سے پورے ملک کی طرح پختون بھی تنگ ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے پختون عمران خان کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اس کی وجہ ماضی میں ن لیگ اور پی پی پی کی جانب سے کی گئی زیادتیاں اور امتیازی سلوک ہے۔ اس کی وجہ تبدیلی کا خواب یا عمران خان کی محبت کم اور سابقہ حکمرانوں سے نفرت زیادہ ہے۔
کیا عمران خان کی سیاست ختم کرنے کے خواہشمندوں نے اس زاویے سے کچھ سوچا ہے؟ عمران خان کی جڑیں کاٹنے کے دعویداروں نے پختونوں کی شکایات کے ازالے کے لیے کیا کیا ہے؟
اگر خان کو گرانا ہے تو جڑوں کو کاٹنا پڑے گا۔ پختونوں کی شکایات کا ازالہ کرنا پڑے گا۔ مستقبل سے متعلق ان کے خدشات کو دور کرنا پڑے گا۔
ورنہ یاد رکھیے
خان کچھ کارکردگی دکھائے یا نہ دکھائے، فقط عوام (خصوصا" پختون) مئں موجود سابقہ حکمرانوں سے نفرت کی بنیاد پر خان تمہاری جڑوں میں بیٹھا رہے گا۔
واپس کریں