دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دو طبقات، دو قانون۔امام صافی
امام صافی
امام صافی
افلاطون نے ہزاروں سال قبل کہا تھا:"قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے پھنس جاتے ہیں مگر بڑے جانور اسے توڑ کر نکل جاتے ہیں۔"
دو دن قبل ہمارے محلے میں ریڑھیوں پر فروٹ بیچنے والوں کے ہاں شادی تھی۔ رات کو میوزک پروگرام کیا۔ اگرچہ ہم بھی میوزک سے تنگ تھے لیکن یہ سوچ کر گزارہ کیا کہ شادی ہے، گزر جائے گی۔
لیکن پھر پولیس آئی، ڈیک شیک اٹھائے اور دو جوان پکڑ کر لے گئے۔چھڑانے کے لیے جانے والوں نے تھانے میں آٹھ ہزار روپے بھی دئیے تاکہ لڑکوں کو چھڑایا جاسکے اور شادی خراب نہ ہو لیکن ایف آئی آر کٹ گئی اور دونوں کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔
اگلے دن گھر پر ولیمہ تھا لیکن دونوں نوجوانوں کو کچہری بھیج دیا گیا جہاں سہ پہر کہیں جا کر ان کی ضمانت ہو سکی جب تک شادی ختم ہو چکی تھی۔
اب پتہ نہیں کتنا عرصہ پیشیاں بھگتنی پڑیں گی فقط میوزک چلانے پر۔
دوسری جانب چالیس ہزار کنال زمین کا کیس ہے ایک ایسی خاتون پر جس پر حکومت وقت کو للکارنے اور طاقت کے منابع کو بذریعہ ٹویٹس لتاڑنے کے بھی الزامات ہیں۔ اس کیس میں خاتون کو گرفتار کیا جاتا ہے لیکن جلد ہی وزیر اعلی کا حکم آ جاتا ہے رہا کرنے کا۔ ازاں بعد عدالت رات گیارہ بجے ملزمہ کو پیش کرنے کا حکم دیتی ہے اور یوں چالیس ہزار کنال زمین کی خورد برد میں مطلوب ایک اشرافی ملزمہ کے لیے رات گیارہ بجے عدالت سج جاتی ہے اور جلد ہی مذکورہ ملزمہ باعزت بری بھی ہو جائے گی۔
کیوں؟
کیونکہ عزت صرف طبقہ اشرافیہ کی ہوتی ہے۔ یہ دیہاڑی دار، ٹیکسی بان، ریڑھی بان، دکاندار طبقے تو فقط قانون کی طاقت چیک کرنے کے لیے تختہ مشق ہوتے ہیں۔
یہ تو اشرافیہ کے منو رنجن کا سامان ہیں۔
واپس کریں