دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"سورے نیو بچیو"
امام صافی
امام صافی
ہمارے محلے میں لڑائی جھگڑا روز کا معمول تھا۔ خاص طور پر بچوں کی لڑائی تو بس سمجھیے جاری ہی رہتی۔ اچھائی البتہ یہ تھی کہ بڑے بچوں کی لڑائی کو سنجیدہ لے کر لڑائی بڑھاتے نہیں تھے۔
دھان پان سے کالو چاچا کی فیملی البتہ ذرا مختلف تھی۔ سب کے سب انتہا کے بدتمیز اور لڑاکو۔ خاتون خانہ تو سارا دن کبھی محلے کے بچوں کو اور کبھی اپنے بچوں کو گندی گندی گالیاں دیتی تھی۔ خاتون کو ہم سب گالڑ آنٹی کہتے تھے۔ اس کی ایک گالی بڑی مشہور تھی، "سورے نیو بچیو"

دونوں بیٹے گڈو اور مٹھو اپنی لڑاکو ماں کے اصلی بچے تھے۔ گندی گندی گالیاں اور لڑائی جھگڑا کیے بنا انھیں چین نہ تھا۔ اسی وجہ سے آئے روز وہ کسی نہ کسی سے پٹتے۔ اور جب انھیں کسی سے مار پڑتی تو گالڑ آنٹی تنور میں مارنے والی لکڑی، جسے ہم پشتو میں "اور لڑونے" کہتے ہیں، لے کر باہر آ جاتی اور شروع ہو جاتی۔ ایسے میں کامیاب بندہ وہ تھا جو بھاگ جاتا۔ اور یہی گالڑ آنٹی کی بھی کامیابی ہوتی۔ اس کے بعد وہ اگلی لڑائی تک ہر کسی کو یہی کہانی سناتی رہتی کہ فلاں میرے ہاتھ آ جاتا تو دیکھتے۔
ایک بار گڈو اور مٹھو کو کسی سے مار پڑ گئی تو وہ اپنے دھان پان سے ابے کو بلا لائے۔ کالو آیا تو دیکھا کہ سامنے سوا چھ فٹ کا پہلوان شیر خانا بیٹ لیے کھڑا ہے۔ شیر خانا ان سے زیادہ بد تمیز اور منہ پھٹ، اور اوپر سے ہتھ چھٹ بھی تھا۔ بندے نے شیر خانے کے ڈیل ڈول کو دیکھا، اس کے ہاتھ میں بلے کو دیکھا، کچھ دیر سوچا اور پھر اپنے بچوں کو تھپڑوں اور لاتوں پر رکھ کر واپس گھر کو چل دیا۔
ییچھے سے گالڑ آنٹی گالیاں نکالتی آرہی تھی۔ چیخ کر بولی، "ایناں کی کیوں مارنے پئے او؟" (ان کو کیوں مار رہے ہو؟)
بندے نے کنکھیوں سے شیر خانے کو دیکھ کر کہا، "تے ہور کساں ماراں؟ تداں؟" (تو اور کس کو ماروں؟ تمہیں؟)
آنٹی نے سامنے دیکھا تو شیر خانا۔۔۔۔
اسے بھی سمجھ آگئی اور بچوں کو دو ہتھڑ مار کر چلائی، "سورے نیو بچیو! بندہ بندہ تک کے پڑیا کریا کرو۔" (سور کے بچو! بندہ بندہ دیکھ کر لڑا کرو۔)

تان سے تان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سین 1
حقیقی آزادی کے لیے سب لوگ اسلام آباد پہنچو۔ ہم حکومت گرائے بنا واپس نہیں آئیں گے۔
سین 2
ہم پختونخوا اور پنجاب میں اپنی حکومت گرا رہے ہیں۔
وڑ گئی آزادی
واپس کریں