امام صافی
جانتے ہیں شرک کی بنیاد کیسے پڑتی ہے؟احترام میں حد سے گزرنے سے۔پہلے احترام، پھر عقیدت اور بالآخر یہ عقیدت بندگی تک لے جاتی ہے۔ملک کے طول و عرض میں بکھرے اولیاء کے دربار اسی وجہ سے آباد ہیں۔جب میں چھوٹا تھا تو ہم راولپنڈی کے ایک گاؤں تلسہ میں رہتے تھے۔ اس گاؤں میں آبادی کے بیچوں بیچ ایک ٹیلہ نما اونچی جگہ پر ایک زیارت تھی جہاں ایک قبر نما جگہ تھی۔ اس قبر پر کئی طرح کے گول پتھر رکھے تھے۔ علاوہ ازیں مٹی کے دئیے بھی رکھے ہوئے تھے۔ اس زیارت پر ہر سال جلوس کی شکل میں لوگ آ کر عرس مناتے، مٹھائیاں اور پھل بانٹتے۔ عام دنوں میں لوگ زیارت پر آتے اور دیوں سے تیل لیتے اور جسم میں جہاں جہاں درد ہوتا، وہاں لگاتے۔ علاوہ ازیں قبر پر رکھے گول پتھر اٹھا کر پورے جسم پر بغرض و طلب شفا پھیرتے۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ زیارت کس بابا کی ہے۔کچھ بڑا ہوا تو پتہ چلا کہ یہاں تو دراصل قبر ہے ہی نہیں۔ یہ تو دراصل راولپنڈی کے مشہور بابا گوہر علی شاہ کی بیٹھک "ہے"۔ انھوں نے ایک بار سفر کرتے ہوئے یہاں آرام کیا تھا۔ جبکہ بابا جی کی قبر تو بکرامنڈی کے مقام پر ہے جو بابا گورا (بابا گوہرا) کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دربار بھی میرا دیکھا بھالا ہے۔ لوگ یہاں دعائیں مانگنے آتے ہیں، حاجت روائی طلب کرتے ہیں۔ باہر سے گزرتے وقت لوگ دربار کی دیواروں کو چومتے ہیں، ماتھا رگڑتے ہیں اور ہوتھ لگا کر ہاتھ چومتے ہیں۔
یہاں ہر سال کافی بڑا میلہ لگتا ہے۔ نصرت فتح علی خان، عابدہ پروین اور عزیز میاں قوال جیسے بڑے نام یہاں قوالی گانے آ چکے ہیں۔
سنہ 2000 میں میں اس دربار کے سامنے ایک کلینک میں نوکری کرتا تھا۔ یہاں کے مقامی رہائشی ایک بابا جی اکثر کلینک پر آتے اور پھر سارا دن بیٹھے رہتے اور دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔
بابا جی بڑے سخت قسم کے بریلوی اور بابا گورا کے مرید تھے۔
ایک بار ان سے بابا گورا کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہاں تو بابا جی دفن ہی نہیں ہیں۔
یاحیرت!!!! یہاں بھی دفن نہیں تو قبر کس کی ہے؟
اس سوال کے جواب میں بابا جی نے بتایا کہ بابا جی دراصل خاندانی پیر نہیں تھے۔ کشمیر میں کوئی قتل وغیرہ کے کیس سے بھاگ کر گوجر خان آئے تھے اور یہاں ایک جنگل میں بس گئے تھے۔ یہاں ان سے کچھ کرامات کا ظہور ہوا۔ یہاں کے لوگوں نے دیکھا تو ساتھ لے گئے اور یوں بابا جی علاقے کے لوگوں کے پیر بابا ہوگئے۔
ایک بار کسی بات پر بابا جی اپنے عقیدتمندوں سے ناراض ہو کر راولپنڈی چلے آئے اور اس مقام پر رہائش پذیر ہوگئے جہاں آج ان کا علامتی دربار ہے۔
عرصہ دراز تک وہ یہاں مقیم رہے اور یہیں فوت ہوگئے۔ جب انھیں موجودہ دربار بابا گورا شاہ میں دفن کیا گیا تو گوجر خان سے ان کے پرانے عقیدتمند آپہنچے اور جھگڑا شروع ہوگیا۔وہ ہر صورت میت اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
علاقے کے لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن گوجر خان والے نہ مانے اور عدالت کے زور پر میت نکال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ گوجر خان میں بابا گوہر علی شاہ کا اصل دربار موجود ہے۔ امام مہدی ہونے کا دعوی کرنے والا ملعون ریاض احمد گوہر شاہی انھی بابا گورا کی نسل سے تھا۔
موجودہ بکرامنڈی کے لوگ خالی قبر کو دیکھ دیکھ کر تلملا رہے تھے کہ کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ قبر خالی نہیں چھوڑی جائے گی اور دربار ہر صورت میں بنایا جائے گا۔
لھذا بابا جی کا مصلی، عصا، ایک عدد بیٹھنے کی پیڑھی اور ایک لوٹا اس قبر میں دفن کر کے بابا جی کی یادگار بنا دی گئی جو آج بھی ہزاروں لوگوں کی نظر میں خیر و برکت کا باعث و مرکز ہے۔
لیاقت باغ راولپنڈی میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو جس مقام پر قتل کیا گیا، وہاں بھی ایک چھوٹی سی یادگار قائم ہے۔
اس مقام پر بینظیر بھٹو کی تصویر لگائی گئی ہے اور تصویر کے ساتھ ہدایت لکھی گئی ہے، "برائے مہربانی جائے شہادت کا احترم کریں۔ جوتوں سمیت جائے شہادت پر نہ چڑھیں۔"
بینظیر کی قبر تو لاڑکانہ میں ہے لیکن جائے شہادت پر ایک عدد دربار قائم ہے۔
اور قوی امید ہے کہ کسی دن یہاں "جائے شہادت بی بی زیارت" تعمیر ہوگی جو مرکز رشد و ہدایت اور باعث خیر و برکت ہوگی۔
واپس کریں