امام صافی
پاکستان میں سیاسی خاندانوں کے بچے سیاستدان بن کر ڈائریکٹ "لیڈر" بن جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ بالا ہی بالا ہو جاتا ہے۔ عوامی سطح پر نہ آنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی عوامی حالات میں زندگی گزارنے کی تاکہ انھیں عوامی مسائل کا صحیح سے ادراک ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کے حل کے لیے صحیح معنوں میں نہ سمجھ ہوتی ہے، نہ کوشش ہوتی ہے نہ یہ مسائل حل ہو پاتے ہیں۔علاوہ ازیں افسر شاہی بھی ایک طرح سے موروثی ہو چکی ہے۔
غریب کے بچے تو چھوٹے موٹے سکولوں سے پڑھ کر ساری زندگی نوکریوں کے لیے دھکے کھاتے ہیں یا پھر چھوٹے موٹے کلرک بھرتی ہو جاتے ہیں جبکہ اشرافیہ کے بچے سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں، سونے کا نوالہ کھاتے ہیں، ائیر کنڈیشنڈ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہاں سے نکل کر سیدھے افسری کی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں۔
کنویں کے مینڈک کی طرح ان کی معلومات ناز و نعم میں گزری زندگی تک محدود ہوتی ہیں۔ نہ انھیں عوامی مسائل کا ادراک ہوتا ہے، نہ انھیں حل کرنے کا گر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ روز نئے بچے جنتے ہیں۔
پچھلے چند سالوں سے سیاسی جماعتوں کے باہمی، اور اداروں کے ساتھ چپقلش کے باعث عوام کے مسائل کی طرف حکمرانوں کی توجہ رہی ہی نہیں جس کے باعث عوام کی حالت کافی پتلی ہوچکی ہے۔ ایک جانب بے روزگاری اور دوسری جانب دن دگنی رات چوگنی بڑھتی مہنگائی نے عوام، خاص طور پر سفید پوش طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
ایسے میں افسر شاہی کے کچھ نابغے عوام پر اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھانے، حمکرانوں کی چاپلوسی اور اپنی ذمہ داری کی خانہ پری کے لیے بعض عجیب اقدامات کرتے ہیں۔ کاروباری طبقے کے لیے ہول سیل مارکیٹ میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں سے سرکاری نرخوں پر سامان مل سکے لیکن فروخت کے لیے سرکار نے نرخ مقرر کر رکھے ہیں۔ ان نرخوں پر اشیاء نہ بیچنے والوں کے خلاف آپریشنز بھی کیے جاتے ہیں، جرمانے اور گرفتاریاں بھی کی جاتی ہیں، حتی کہ دکانیں بھی سیل کی جاتی ہیں۔ دو سال قبل میرے ایک کزن کو ایسے حال میں دکان سے اٹھایا گیا کہ اس کے نرخ بھی مقرر کردہ سرکاری نرخوں کے مطابق تھے اور لسٹ آویزاں تھی لیکن آپریشن کرنے والوں کو اپنی فعالیت دکھانی تھی، سو اٹھایا اور سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ دو دن بعد جرمانے کے نام پر کچھ وصولی کر کے رہا کر دیا۔
ابھی حال ہی میں پنجاب حکومت کے نرخوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے کی جانب سے اشیائے خورد و نوش کے نرخوں کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ اگر فہرست کا مطالعہ کر کے اس کا مارکیٹ ریٹ سے موازنہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ فہرست تیار کہاں ہوئی اور کیا سوچ کر تیار کی گئی۔
شاید فہرست تیار کرنے والے کو ریٹ بتانے والے نے یہ ریٹ اسی خوف سے بتا دیا گیا ہوگا جو خوف دیگر دکانداروں کو ہے۔
چند ایک اشیاء کے نرخ ملاحظہ کریں:
جنس۔ خرید۔ فروخت۔ منافع ٪
چاول باسمتی۔ 250 255 1.96
دال چنا۔ 200 205 2.43
دال مسور۔ 225 230 2.17
دال ماش دھلی۔ 330 335 1.49
سفید چنا (موٹا) 290 300 3.33
مندرجہ بالا نرخوں کے حساب سے اوسط شرح منافع 2.27 فیصد بنتی ہے۔
علاوہ ازیں بناسپتی گھی، آٹے اور پیکنگ والی اشیاء کی جو قیمت مقرر ہے، وہ مندرجہ بالا شرح سے بھی کم ہے۔
اول تو یہ چیزیں ہول سیل مارکیٹ میں ان نرخوں پر دستیاب نہیں، اور نہ پرچون فروش اس نرخنامے پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں، تاہم بفرض محال اگر کوئی دکاندار حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کے حساب سے سامان بیچتا ہے تو مندرجہ بالا مقررہ شرح منافع کے حساب سے اگر ایسا دکاندار دن میں ایک لاکھ روپے کی فروشات کرے تو اسے مبلغ 2270 روپے منافع حاصل ہو گا۔
ایسی دکان جس کی روز کی فروشات ایک لاکھ ہوں، اس میں کم از کم تین افراد کام کے لیے درکار ہیں۔
مالک کو آپ ایک جانب رکھیے، فقط دو مزدوروں کا حساب لگا لیے ہیں۔
کم از کم یومیہ اجرات اگر 800 روپے لگائی جائے تو 1600 روپے مزدوروں کی اجرات ہوگئی۔
آج کل راولپنڈی کے ایک عام بازار میں بھی عام پیمائش کی دکان کا کم سے کم کرایہ 15 سے 20 ہزار روپے مقرر ہے۔ کرائے کی مد میں یومیہ 600 روپے اور چائے پانی بل بجلی وغیرہ کی مد میں 400 یومیہ سمجھ لیں۔
یوں 2600 روپے روزانہ کے تو کم از کم اخراجات بنتے ہیں۔
مذکورہ قسم کے دکاندار کو فقط اپنی دکان کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سوا لاکھ روپے کی فروشات درکار ہیں۔ جبکہ اتنی فروشات کے حصول کے لیے دکان میں کم از کم پچیس سے تیس لاکھ کی سرمایہ کاری درکار ہے۔
یعنی ایک شخص پچیس تیس لاکھ کی سرمایہ کاری کے بعد جان توڑ محنت کر کے لوٹ مار اور مال ایکسپائری کے خطرات کا سامنا کر کے فقط دکان کے اخراجات پورے کرتا ہے۔ اسے اپنی سرمایہ کاری میں سے ٹھینگا بچتا ہے۔ اپنے گھر کے اخراجات کے لیے اسے اتنی سرمایہ کاری مزید درکار ہوگی یا پھر وہ مجبورا" دو نمبری کرے گا، غلط مال بیچے گا، کم تولے گا۔ اگر ریٹ زیادہ لگائے گا تو ہر وقت چھاپے کا خوف، دکان سیل ہونے کا خوف، جرمانے اور گرفتاری کا خوف۔
تو جب گرفتاری کا بھی خوف ہے، جرمانے کا بھی اور بدنامی اور چور کہلائے جانے کا بھی، تو اس سے بہتر یہ نہیں کہ دکان کو آگ لگا کر سر دردی کم کی جائے اور کسی ویران راستے پر لوگوں کو لوٹا جائے۔
اس کام میں انویسٹمنٹ زیرو ہے، منافع بہت زیادہ اور گرفتاری کا رسک نسبتا" کم ہے۔ اگر گرفتار ہو بھی گئے تو مک مکا زندہ باد۔
واپس کریں