دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
راولپنڈی،مصریال کے زومبیز
امام صافی
امام صافی
ہالی ووڈ کی ہارر فلموں میں زومبیز تو سب نے ہی دیکھ رکھے ہوں گے؟ گلے سڑے زندہ جسموں کے ساتھ مردہ دماغ والے گندے سے انسان، جو صحتمند افراد کو کاٹتے ہیں اور اپنے جیسا بنا دیتے ہیں۔ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ فرضی مخلوق ہے۔ حقیقت سے زومبیز کا کوئی تعلق نہیں۔لیکن اگر میں کہوں کہ زومبیز درحقیقت ہوتے ہیں تو کوئی مانے گا؟سب مجھے پاگل کہیں گے، فکشن زدہ بےوقوف کہیں گے۔لیکن یہ حقیقت ہے۔زومبیز واقعی ہوتے ہیں۔میری ان سے روز ملاقات ہوتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ میں انھیں دیکھ کر اپنے بچوں کی زندگیوں کے بارے میں خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ اللہ نہ کرے، میرے کسی بچے کو کاٹ نہ لیں، انفیکٹڈ نہ کر دیں، اپنے جیسا نہ بںا لیں۔

راولپنڈی کا علاقہ مصریال روڈ ان زومبیز کا مرکز ہے۔
نیازی ٹاؤن سے لے کر قبرستان چوک تک، مکرم ٹاؤن، مدینہ کالونی مصریال گاؤں، حسین آباد ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ خالی پلاٹ، سڑکوں کے کنارے، دکانوں کے تھڑے، حتی گلی کوچوں میں یہ جگہ جگہ پھرتے اور لیٹے نظر آتے ہیں۔ ان کے دن بھی یہیں اور راتیں بھی۔ بے گھر لوگ رہتے بھی یہیں ہیں۔ شدید ٹھنڈی راتوں میں یہ ایک آدھ چادر اوڑھے گتے کا کارٹن زمین پر بچھائے کسی کونے کھدرے میں سوئے پڑے رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو کوئی سر راہ ایسے بےسدھ پڑا ملتا ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ یہ حالت اچھے بھلے انسان کی انسانیت کا بھی امتحان ہوتی ہے کہ کیا کرے؟ کئی نشئی ایسے ہی سڑک کے کنارے، کسی خالی پلاٹ میں یا گندگی کے کسی ڈھیر پر مر گئے کہ ان کا آخری انجام ان کی زندگی سے بھی برا ہوتا ہے۔

کہیں کہیں یہ اپنے اوپر چادریں ڈال کر ٹولیوں میں بیٹھ کر نشہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں اب کئی ایک خواتین بھی شامل ہو چکی ہیں۔ چند ایک بالکل نوجون بچے، جن کی ابھی داڑھی مونچھ بھی صحیح نہیں آئے، وہ بھی اس لعنت کا شکار یہاں پڑے رہتے ہیں۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان میں بعض جوڑے ہیں جو اپنے بچوں کو ساتھ لیے اس لعنت کو بھگت رہے ہیں۔ میں نے کئی ایک بار دیکھا کہ ماں باپ چادر اوڑھے نشہ کر رہے ہوتے ہیں جبکہ معصوم بچے ایک جانب کھڑے یا بیٹھے ہیروئن کا بچا کچا دھواں پھانک رہے ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟علاقے میں بہت سے لوگوں کا مستقل کاروبار ہی منشیات کی فروخت ہے۔ حتی کہ یہ منشیات فروش سڑک کے کنارے کرسیاں رکھے دھڑلے سے منشیات فروخت کرتے ہیں۔یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے۔ اگر نہیں جانتے تو فقط متعلقہ ادارے نہیں جانتے۔

مصریال کا مذکورہ علاقہ منشیات فروشی کا ایک ایسا بڑا گڑھ بن چکا ہے کہ کمال آباد، ٹاہلی موری، ڈھیری حسن آباد، لالہ زار، چوہڑ، سہام اور حتی اڈیالہ روڈ سے نشئی یہاں منشیات خریدنے آتے ہیں۔یہ نشئی لوگ نہ صرف یہ کہ علاقے کے مکینوں کے بچوں کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ یہ قسم قسم کے جرائم میں بھی ملوث ہیں۔ راہ چلتے کوئی چیز سامنے آئے تو اٹھا لیتے ہیں، گھروں میں گھس کر چوریاں کرتے ہیں۔ کوئی زیر تعمیر مکان ان سے محفوظ نہیں۔کسی نے بوری اٹھائی ہے کچرا چنتا ہے، کسی نے لمبی سے لوہے کی تار رول کر کے کندھے پر اٹھا رکھی ہے گٹر کی صفائی کا کام کرتا ہے۔ بہت سے نشئی بھیک مانگتے ہیں۔

مذکورہ علاقہ کوئی ویران مضافاتی علاقہ نہیں ہے۔ یہ کینٹ کا حصہ ہے اور ان نشئیوں کے یہ مراکز مین مصریال روڈ کے اوپر ہی ہیں۔ مذکورہ علاقہ (نیازی ٹاؤن تا قبرستان چوک) ڈیڑھ کلو میٹر لمبائی پر مشتمل ہے۔ اس ڈیڑھ کلومیٹر میں آرمی کی مصریال یونٹ شامل ہے اور نصیر آباد تھانہ بھی یہیں موجود ہے۔اب ایک اور افسوسناک صورتحال سامنے آ رہی ہے کہ بہت سے بے روزگار لڑکے ہیروئن فروشی کے دھندے میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ جتنے ہیروئن فروش بڑھیں گے، اتنے ہی وہ سپنے لیے گاہک تلاش کریں گے اور یوں یہ لعنت بڑھتی چلی جائے گی۔

مصریال روڈ ایک عام سڑک ہے۔ اس پر سے روزانہ ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں جن میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں ججز بھی ہوں گے، فوجی افسران بھی، صحافی بھی، وکیل بھی اور سوشل ورکرز بھی۔ پولیس کا تو ایک عدد تھانہ یہیں موجود ہے، لیکن افسوس کہ اس عفریت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا جو ہزاروں زندگیاں نگل چکا ہے اور بہت سی اس خطرے سے دوچار ہیں۔
واپس کریں