امام صافی
پاکستانیو! کچھ تلخ حقیقت بیان ہوجائے؟
ہم امیدیں لگاتے ہیں شخصیات سے کہ فلاں آئے گا، انقلاب لائے گا اور ہمارے حالات سدھار جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا سیاسی نظام ایسا ہوچکا ہے کہ ہر سیاسی لیڈر برسر اقتدار آ کر عوام سے دور کئی حفاظتی پرتوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کے کانوں پر سیکیورٹی اور پروٹوکول کے پردے پڑ جاتے ہیں۔ اپوزیشن کے دور میں عوام کے درد میں مرے جانے والے جب حکومت میں آتے ہیں تو ان تک ان کے حفاظتی خول کے باعث عوام کی آہ و بکا اور چیخ و پکار پہنچ ہی نہیں پاتی۔
ان کے گرد چاپلوس اور موقع پرست عناصر کا ایسا جمگھٹا ہوتا ہے جو انھیں حقائق کا ادراک نہیں ہونے دیتا۔ جو انھیں اپنی مستی میں مست رکھتا ہے۔ وہ انھیں حکمرانی کے نشے میں ایسا گم کر دیتا ہے کہ انھیں سوائے حکمرانی کے نشے لوٹنے کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
اگر کبھی ان حکمرانوں کا ضمیر انھیں جھنجھوڑ کر عوام کا خیال رکھنے پر اکسائے تو یہی چاپلوس عناصر انھیں سب اچھا کی رپورٹ دے کر پھر سے اپنی مستیوں میں مشغول کر دیتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کی حالت بد سے بد تر اور موقع پرستوں کے مزے ہو جاتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ عوام اور حکمران کے بیچ کی اس رکاوٹ کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں۔
عوام کی حالت تب تک سدھر نہیں سکتی جب تک حکمران اور عوام کے بیچ یہ خوشامدی ٹولہ رکاوٹ ہے۔
چند دن قبل "امت مسلمہ کے لیڈر" اور پاکستان کے "مقبول" سمارٹ پرچی بنا تقریر کرنے والے وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ تین سال ہوگئے کیس کیے ہوئے، مجھے عدالت سے انصاف نہیں ملا۔۔۔۔۔۔
ع۔۔۔۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
حیرت ہے کہ ملک کا وزیر اعظم انصاف کو رو رہا ہے تو عوام کدھر جائے؟ کس سے فریاد کرے؟ کس سے آس لگائے؟
دوسری جانب جب انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے پڑے، وکیلوں کی بھاری فیسیں دینی پڑیں، عدالتوں میں ذلیل ہونا پڑا تو تین بار کے وزیر اعظم اور عظیم تاریخ ساز شخصیت اور پاکستان کی خوش بختی کی علامت کھرب پتی نواز شریف کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ منسلک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ :
"میں بھی اپنے وکیلوں کی فیسیں ادا کر کر کے تھک گیا ہوں۔ میں مذاق نہیں کر رہا۔ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں اس کو ٹھیک کرتا۔"
ذرا سوچیے۔۔۔۔۔
تین بار کے وزیر اعظم کو یہ پتہ کیوں نہیں کہ پاکستان میں انصاف کتنا مشکل اور مہنگا ہے؟
کیونکہ خود ان کو اول تو مسائل پیش ہی نہیں آتے۔ اور اگر کبھی مسائل درپیش ہوں تو تمام مسائل بیک جنبش قلم، یا بیک جنبش انگشت حل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ عوام کے مسائل ان تک چاپلوس اور موقع پرست مافیا پہنچنے ہی نہیں دیتا یا پھر فلٹر کر کے پہنچاتا ہے۔
سو، مسائل کی جڑ عمران خان، نواز شریف یا کوئی اور نہیں، مسائل کی جڑ یہ نظام ہے۔ عوام اور حکمران کے بیچ میں حائل پردے ہیں۔ جب تک ان رکاوٹوں کو مسمار نہیں کر دیا جاتا، عوام کی حالت بدلنا خیال است و محال است و جنوں۔
والسلام
واپس کریں