دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نظام تقریری۔کالم نگار۔امام صافی
امام صافی
امام صافی
شیر شاہ سوری سے بری طرح شکست کھانے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں جان بچانے کے لئے اپنے گھوڑے سمیت گنگا میں کود گیا۔ اس سے پہلے کہ بے رحم موجیں اسے گھوڑے سمیت نگل لیتیں، نظام نام کے ایک سقہ (پانی بیچنے والا) نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر دریا میں چھلانگ لگادی اور ہمایوں کی جان بچالی.
عرصہ بعد ہمایوں کو دوبارہ اقتدار نصیب ہوا تو نظام سقہ کو بلوا بھیجا اور شاہانہ شان سے اپنا تعارف کروا کر پوچھا کہ اپنے اس احسان کے بدلے مانگو کیا مانگتے ہو؟
نظام کی تو مت ماؤف ہوگئی کہ مانگے تو کیا۔

بالآخر خوب سوچ بچار کے بعد اس نے ایک دن کی بادشاہت کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے بھی اس کی خواہش پوری کر دی اور اسے ایک دن کے لیے بادشاہ بنا دیا۔
نظام سقہ نے نہ تو سونا دیکھا تھا نہ چاندی نہ ہیرے جواہرات۔ ساری زندگی پانی بیچنے والے ایک مشکیزے اور گھاس پھونس کی جھونپڑی کے مالک کی تمام ضروریات زندگی چمڑے کے مشکیزے سے پوری ہوتی تھیں لھذا اس کی سوچ چمڑے کے مشکیزے سے آگے بڑھتی بھی نہ تھی۔
لھذا اس نے بادشاہ بنتے ہی حکم جاری کیا کہ پورے ملک میں سونے چاندی کی جگہ چمڑے کے سکے جاری کیے جائیں۔
کیونکہ اس کے نزدیک دنیا کی سب سے قیمتی چیز چمڑہ تھی جس کا حصول بھی آسان تھا بہ نسبت سونے چاندی کے۔ مطلب گھر کی کھیتی تھی۔ جب دل کیا، ایک عدد گائے بھینس حلال کرو۔ گوشت ہڑپ کرو اور چمڑا بھی استعمال کرو۔

ایسا ہی ایک عدد نظام ہمارے ہاں بھی مسلط ہے۔ نظام سقہ کے مشکیزے کی طرح اس نظام کا کل سرمایہ بنا پرچی کی تقریریں ہیں۔ اور یہ اکیلا نظام نہیں ہے۔ اس کے پیچھے نظاموں کی پوری قوم ہے جسے قوم یوتھ کہا جاتا ہے۔ ان کا آغاز تقریر سے ہے۔ یہ عاشق ہیں تقریر کے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا تقریر ہے۔ ان کے نزدیک مہنگائی، بےروزگاری، بد امنی، کرپشن، غیر یقینی صورتحال، غرض ہر چیز کا حل بنا پرچی کے تقریر میں ہے۔
قوم یوتھ کی تو خواہش ہے کہ نظام عصر حاضر کی تقریروں کے کرنسی نوٹ جاری کروا دئیے جائیں۔
جلسوں میں تقریر 10 کا نوٹ، ٹی وی پر خطاب 50 کا نوٹ، اسمبلی میں خطاب 100 روپے کا نوٹ، اسلامی ممالک سے خطاب 500 کا نوٹ، کسی گورے کو انٹرویو یا گوروں سے خطاب 1000 کا نوٹ، اور اقوام متحدہ میں انگریزی تقریر 5000 کا نوٹ۔
اور خود نظام کا بس چلے تو اپنی تقریر پر پی ایچ ڈی شروع کروا دے۔
واپس کریں