امام صافی
ایک پشتو محاورہ ہے،
"لگے وریجے ڈیرے ڈمامے"
جس کے معنی ہیں
چاول کم اور ڈھول ڈھمکا زیادہ۔
یعنی کسی شادی میں مہمانوں کے لیے کھانا تو پورا نہ ہو لیکن ڈھول ڈھمکا بہت زیادہ ہو۔
خان صاحب کی صفر سے مضروب چار سالہ کارکردگی، بلکہ پختونخواہ کی 9 سالہ کارکردگی بھی ملالیں، کے بعد جب خان صاحب آئینی طور سے دھتکار کر نکالے گئے تو تب سے جاری مظلومیت کا ڈرامہ اس محاورے کی عملی تعبیر ہے۔
سازشی بیانیہ بناتے ہوئے بطور ثبوت خان صاحب نے فرمایا کہ امریکی عہدیدار اپوزیشن ارکان سے کیوں ملے؟ کیونکہ وہ خان صاحب کی حکومت کے خلاف سازش کر رہے تھے۔
خان صاحب کے زومبیز اس بات پر آگے پیچھے سوچے بغیر ایمان لے آئے۔
حالانکہ ماضی میں جب خان صاحب اپوزیشن میں تھے تو وہ بھی ملتے رہے تھے۔
لیکن بہرحال، حافظے کی کمزوری کہہ لیجیے کہ یاد نہیں رہا۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔
دو دن قبل،
سازشی بیانیہ تعمیر کرنے کے بعد،
بطور اپوزیشن لیڈر امریکی نمائندے سے ملنے کو سازش قرار دینے کے بعد خان صاحب امریکی کانگریس وومن الہان عمر سے ملتے ہیں جو ایک یہودی کی بیوی اور اسرائیل کی حامی ہیں۔
اور پھر سازشی بیانیہ گھڑنے کے دو دن بعد ہی امریکی نمائندے سے ملنا عالمی لیڈر ہونے کی نشانی بن جاتا ہے۔
یہ کیا سوچ ہے؟
کیا یہ لوگ پاگل ہیں؟
ہرگز نہیں۔۔۔۔۔
یہ ذہنی غلام ہیں۔
بلکہ ذہنی معذور ہیں۔
یہ زومبیز ہیں۔
ان کے لیے درست بس وہی ہے جو خان صاحب کہیں۔
جو خان صاحب کریں۔
ان میں سوچنے کی اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ خان صاحب سے ملنے والی خاتون کا سیاسی پس منظر، ان کا کردار ہی دیکھ لیں۔
اسے اسلامو فوبیا کے خلاف توانا آواز قرار دینے والے جاہلوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ امریکی ساختہ اس خاتون کے اسلام سے مسئلہ ہے کس کو؟
ایسا اسلام جس میں فلسطین کے مقابل اسرائیل کی حمایت انسانیت کہلاتا ہو
ایسا اسلام جس میں ہم جنس پرستی جائز اور بنیادی انسانی حق ہو
ایسے اسلامی کی تو امریکہ خود تبلیغ و آبیاری کے لیے سالوں سے کوشش کر رہا ہے، اور اگر ذرا سی حمایت کا یقین دلا دیا جائے تو امریکہ اسلامی ممالک کے خلاف اپنی تمام بدمعاشی ترک کر کے اسی اسلام کی تبلیغ شروع کر دے۔
ایک ایسی نام نہاد مسلمان خاتون جو ایل جی ٹی بی نامی تنظیم کی رکن ہی نہ ہو بلکہ اس کی شدید داعی بھی ہو، اسے اسلاموفوبیا کے خلاف توانا آواز کہنے والے ذہنی معذور نہیں تو اور کیا ہیں؟
نہ ان کو اسلام کا پتہ ہے، نہ فوبیا کا۔ نہ انھیں الہان عمر سے غرض نہ امریکہ سے۔
ان کے پیش نظر فقط ایک خان ہے جس کا ہر ہر عمل ان کے لیے معیار حق ہے چاہے وہ اسلام کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہو۔
ریاست مدینہ کا چورن بیچنے والا رمضان کے مبارک مہینے میں عین وقت تراویح مجرے سجا کر ڈھول ڈھمکے کے ساتھ مخلوط ڈانس محافل کرواتا ہے تو یہ زومبیز ان کے ساتھ ناچتے ہیں اور اسلامی لیڈر کے نعرے لگاتے ہیں۔
یہ اتنی بھی سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ خان صاحب کے چند دن قبل کے موقف، کہ اپوزیشن لیڈرز سے امریکی عہدیدار کا ملک سے غداری ہے، کی بنیاد پر خان صاحب پر سوال اٹھاتے کہ آج کیوں مل رہے ہیں ایسے مشکوک کردار کی امریکی خاتون سے؟
ان میں اتنی بھی سوچنے سمجھنے کی سکت نہیں کہ ٹرانسجینڈرز لاء کے لیے کوشش کرنے والے خان صاحب کے کردار کے تانے بانے الہان عمر کی ایل جی ٹی بی داعیت سے ملا کر ایک سوال اٹھا سکیں۔
اور اگر یہ سب ریحام خان کی کتاب کے تناظر میں دیکھ لیں تو ایک شک کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ملک میں ہم جنس پرستی کو لیگلائز کرنے کے لیے کوشش ہو رہی ہے، ملک کے خلاف عالمی سازش رچی جارہی ہے اور اس معاملے میں خان صاحب سے کچھ یقین دہانیاں حاصل کر کے اپنی حمایت کا یقین دلانے کے لیے ہی یہ مشکوک کردار کی امریکی عہدیدار خاتون خان سے ملی ہے۔
لیکن خان صاحب کے زومبیز کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔
ان کو پیار ہے تو خان صاحب سے، خان صاحب کے مخلوط مجروں سے۔
ان کے متعلق مولانا بجلی گھر نے فرمایا تھا، "پہ ڈنگ حیران مخلوق"
یعنی ڈھول کی آواز کے سامنے مجبور مخلوق، جنھیں بس ڈھول کی آواز چاہئیے جس پر ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ سکیں اور اپنے کیڑے کو سکون دے سکیں۔
واپس کریں