امام صافی
کہتے ہیں کہ ایک بندے نے خواب دیکھا کہ وہ مرنے والا ہے۔ اسے گھبراہٹ رہنے لگی۔اسے ایک ایسا دیوہیکل دہشتناک شخص آس پاس منڈلاتا نظر آتا جسے دیکھ کر ہی بندے پر دہشت طاری ہو جائے۔مارے گھبراہٹ کے اس شخص نےضروری سامان اٹھایا اور دوسرے شہر بھاگ گیا۔طویل سفر کے بعد جیسے ہی وہ اپنی منزل پر اترا تو اچانک وہی خطرناک شخص سامنے کھڑا نظر آیا۔اب تو اس پر خوف ایسا طاری ہوا کہ کوئی راہ سجھائی نہ دی۔ وہ پھر دوڑا اور کئی دن کی مسافت کے بعد ملک سے ہی نکل کر دوسرے ملک جا پہنچا۔ ابھی اس کی سانس بھی بحال نہ ہوئی ہو گی کہ وہی دیو ہیکل خطرناک شخص سامنے کھڑا نظر آیا۔
اب تو بندے کی سانس حلق میں ہی اٹک گئی۔ گھگھیاتے ہوئے پوچھا کہ کون ہو تم؟
وہ بالا، "ملک الموت."
پوچھا، " کیا چاہتے ہو؟"
خطرناک شخص نے کہا، "تمہاری روح"
کچھ دیر ساکت و جامد رہنے کے بعد پوچھا، "تو پھر قبض کیوں نہیں کر لیتے؟ مجھے بھگا کیوں رہے ہو؟"
ملک الموت بولا، "میں تمہاری روح قبض کرنے تمہارے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ بندہ تو صحیح ہے لیکن جگہ وہ نہیں جہاں تمہاری موت مقرر ہے لہذا تمہاری روح قبض نہ کی اور صحیح مقام کا انتظار کرنے لگا۔ تم وہاں سے بھاگ کر دوسرے شہر پہنچے۔ میں وہاں آیا تو بھی موت کا مقام درست نہ ہونے کی وجہ سے تمہاری روح قبض نہیں کی۔
موت سے بھاگتے بھاگتے اب تم صحیح مقام پر پہنچے ہو۔
اور پھر اگلے ہی لمحے اس کی روح قبض کر لی۔
اے آر وائی کے سینئر اینکر پرسن اور صحافی ارشد شریف سیاسی پنگے بازیوں میں انتہا کو پہنچے، مخالفین کی خوب پگڑیاں اچھالیں اور بالآخر سمجھ گئے کہ آگے سیاسی منظر نامے پر کیا ہونے والا ہے تو انھیں اپنے بارے خوف لاحق ہوا۔ کسی بھی قسم کی سختی، تکلیف، نقصان یا موت کے ڈر سے ملک سے نکل بھاگے اور دوبئی جا پہنچے۔ دوبئی سے لندن، لندن سے واپس دوبئی اور پھر بالآخر جرائم اور سمگلنگ کے گڑھ نیروبی جا پہنچے۔
لیکن ملک الموت سے بھی کوئی بھاگ سکا ہے بھلا؟
بالآخر وہ ملک الموت کو صحیح مقام پر مل گئے اور روح قبض کر لی۔
مرنے کی وجوہات تاحال نامعلوم ہیں۔ کسی کی موت پر ہنسنا درست نہیں تاہم یہ شہادت کے مرتبے پر فائز کرنے والوں کو بھی اور کوئی کام نہیں۔ ملک الموت کسی ادارے کا ملازم ہے اور نہ ہی ارشد شریف کوئی ایسی خطرناک شخصیت تھی کہ جسے مارنے کے لیے اداروں کو نیروبی جا کر آپریشن کرنا پڑے۔
لہذا دعا کیجیے کہ اللہ ان کی کمیاں کوتاہیاں معاف کرے، ان کے ورثاء کو صبر عطا کرے اور بس۔
میرے لیے ارشد شریف کی موت میں فقط ایک ہی سبق ہے:
موت سے کس کو رستگاری یے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
واپس کریں