امام صافی
ہمارے ایک دوست کے پہاڑی گاؤں میں فون کام نہیں کرتا تھا۔ اس کی برادری کی اکثریت پشاور، لاہور، راولپنڈی اور ملتان وغیرہ میں سیٹلڈ تھی۔ وہ خود بھی راولپنڈی میں رہتا تھا۔ اس کے ایک ماموں گاؤں میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی برادری میں جب بھی کوئی فوتگی وغیرہ ہوتی اور میت گاؤں لے جانا ہوتی تو کوئی بندہ بھیج کر گاؤں والے ماموں کو خبر کر دی جاتی سو وہ قبر اور دیگر مراسم وغیرہ کی تیاری کرتے۔
اتفاق سے ہمارے اس دوست کی نوکری گاؤں سے قریب ایک ٹاؤن میں لگ گئی۔
برادری والوں کے لیے آسانی ہوگئی۔
اب جب فوتگی ہوئی تو اسے فون کر دیا گیا اور اس نے اطلاع گاؤں پہنچا دی۔
خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ چار یا پانچ بار مسلسل ہفتے دس دن کے وقفے سے کوئی نہ کوئی فوت ہوتا رہا اور بھائی صاحب یہ خبر دینے گاؤں جاتے رہے۔
کہتا ہے کہ کچھ دن بعد ویسے ہی دل کیا اور چھٹی والے دن گاؤں گھومنے چلا گیا۔ ماموں اپنے بیٹوں کے ساتھ کھیت میں کام کر رہے تھے۔ مجھے دور سے آتا دیکھ کر سب کام چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماموں بیلچہ کھڑا کر کے نہایت افسردہ پوز میں ٹھوڑی بیلچے کے دستے پر جما کر کھڑے ہوگئے۔
جب میں کچھ قریب ہوا تو ماموں نے دور سے پوچھا، "کون فوت ہوا ہے؟"
میں نے چلا کر جواب دیا، "کوئی نہیں، ویسے گھومنے آیا ہوں۔"
لیکن ماموں ویسے ہی کھڑے رہے۔ قریب پہنچ کر سلام دعا کے بعد ماموں کو بتایا کہ ویسے ہی چھٹی والے دن گھومنے آگیا ہوں تب جا کر ان کی تسلی ہوئی اور بولے، "یار تم ہر بار کوئی فوتگی کی خبر لے کر آتے ہو اس لیے تمہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے موت کا فرشتہ دیکھ لیا ہو۔"
یہی صورتحال اس وقت چاچا مفتاح کی ہو چکی ہے۔ جیسے ہی میمن چاچا ٹی وی پر دکھائی دیتا ہے، لوگ ٹینکیاں فل کرانے پٹرول پمپوں پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس بوتھے سے کبھی خیر کی خبر آئی ہی نہیں۔
واپس کریں