دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے
اظہر سید
اظہر سید
ظلم اور زیادتیوں کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو کبھی چیلنج نہیں کیا ۔پالتو جج ہمشہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے قائم کردہ انفراسٹرکچر کی بدولت اعلی عدلیہ میں پہنچتے ہیں اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کی براہ راست حکومت یعنی مارشل لا یا مالکوں کی ایما پر قائم کردہ شوکت عزیز یا نواز شریف ٹائپ حکومتوں کو چیلنج نہیں کرتے ۔انصاف اس وقت یاد آتا ہے جب ان پالتو ججوں کو اسٹیبلشمنٹ اشارہ کرتی ہے اور یہ شاعرانہ مثالیں دے کر یوسف رضا گیلانی کو خط نہ لکھنے یا نواز شریف کو پنامہ سے اقامہ نکال کر فارغ کر دیتے ہیں۔یہ جج غلیظ ترین مخلوق ہیں بھلے مولوی مشتاق،ارشاد،افتخار چوہدری ،کھوسہ ،ثاقب نثار یا اسی نسل کے دوسرے ہوں ۔
اس مرتبہ الٹی گنگا بہنا شروع ہوئی ہے ۔عمران خان جیسے اس قوم پر مسلط کرنے کیلئے جنرل پاشا،ظہیر الاسلام اور جنرل فیض حمید نے ایک "نیا چہرہ" کے طور پر لانے کا تجربہ کیا اس نے فراغت کے بعد احسان فراموشی کی نئی مثالیں قائم کرتے ہوئے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو ہی چیلنج کر دیا ۔
دوسرا تماشا یہ ہوا پالتو ججوں کی پوری لاٹ نے بھی بغاوت کر دی اور ہر روز طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے ۔
یہ محجزہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ 2018 کے ناکام تجربہ نے ریاست کو نادہندہ کر دیا ہے اور ساتھ میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو بھی کمزور کر دیا ہے ۔
ہر گزرتے دن کل کے طاقتور مسلسل کمزور ہو رہے ہیں اور چیلنج کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
بظاہر مسلم لیگ ن کی سہولت کاری کی گئی لیکن ساتھ میں خیبر پختونخوا حکومت کے زریعے ایک تلوار بھی لٹکا دی گئی ۔معیشت میں طوطے کی جان ہے اور معیشت نادہندہ ہے ۔اس لئے ہر تدبیر الٹی پڑ رہی ہے اور کوئی دوا کام نہیں کر رہی ۔
معاملات یہاں تک پہنچ گئے ہیں طاقتور فوج پر براہ راست حملہ کرنے والوں کو بلوچ نوجوانوں کی طرح لاپتہ کرنے کی بجائے عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے ۔
نو مئی کے ایک نامزد گنڈا پور وزیر اعلی خیبرپختونخوا بن کر کور کمانڈر پشاور سے ملاقات کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے ۔
ناکامی یتیم ہوتی ہے یہ صدیوں کی دانش سے بنا محاورہ اس وقت پاکستان کے تیزی سے بدلتے حالات میں اپنی صداقت ظاہر کر رہا ہے ۔
نادہندہ معیشت کی وجہ سے کہیں پر کوئی سمت نظر نہیں آرہی سفر کس طرف کرنا ہے ۔ن لیگ جسے حکومت دی گئی اس کے ہارے یا ہروائے گئے مرکزی راہنما اپنے ہی وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ پر کھلے عام نجی چینلز پر تنقید کرنے لگے ہیں۔
لگتا ہے سارے ماضی کے حسابات لے رہے ہیں ۔ایک طرف جیل میں عمران خان کو تمام درکار سہولتیں دی جا رہی ہیں دوسری طرف اسے بربادی کا مرکزی ملزم بھی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ہر جرم کا خطا وار ٹھہرایا جا رہا ہے ۔
طاقتور اسٹیبلشمنٹ کارپوریٹ مفادات کے جس گھوڑے پر ستتر سال سے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا رہی تھی اس گھوڑے کی رکاب اور لگامیں مالکوں کے ہاتھوں اور پاؤں سے نکل چکی ہیں اور گھوڑا ہے کہ سرپٹ بھاگتا ہی جا رہا ہے ۔ہمیں ہر گز حیرت نہیں ہو گی جب ماضی کے پالتو جج ،رندہ درگاہ عمران خان ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا مستقبل قریب میں اتحاد ہو جائے ۔
واپس کریں