دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فیصلوں کی جواب دہی نہیں ہوتی ۔
اظہر سید
اظہر سید
افغانستان کے اندر ملک دشمن عناصر کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی اور کلیجہ ٹھنڈا ہوا ۔ پاکستان کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ ڈالنے کے عمل کی ہر پاکستانی تحسین کرے گا بھلے افغانی ہوں، ایرانی یا پھر بھارتی ۔
مسلہ یہ ہے امریکیوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد معاشی طور پر کمزور افغان حکومت کس برتے پر ڈیورنڈ لائن کو عارضی سرحد قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان دشمن پاکستانی طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہی ہے ۔ مغربی ممالک کی افغانستان میں دلچسپی ختم ہو چکی ہے اور مستقبل میں یہاں سے ڈالر ملنے کی کوئی آس امید بھی نہیں ۔
طالبعلموں کی افغان حکومت اشرف غنی کی طرح فی الحال بھارت دوست انفراسٹرکچر بھی نہیں رکھتی اور نہ ہی مغرب کی ڈارلنگ ہے ۔
افغانستان کوئی مارکیٹ بھی نہیں جہاں عالمی سرمایہ کاروں کو مستقبل قریب میں منافع نظر آتا ہو تو پھر جو دہشت گردی افغانستان میں ختم ہو گئی ہے وہ پاکستان میں کیوں شروع ہو گئی ہے ۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اسوقت تک نہیں ملے گا جب تک اسٹیبلشمنٹ کے اندر چین آف کمانڈ کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے جوابدہی کا نظام قائم نہیں ہوتا ۔
اردو ادب کے اولین شاعروں میں سے ایک شاعر پر کبھی آمد ہوئی تھی
کم ہونگے اس بساط پر ہم ایسے بدقمار
جو چال ہم چلے وہ نہایت بری چلے
سسٹم میں ایک گروپ ہوتا ہے اور ہمیشہ ہوتا ہے جو ستتر سال کے تجربہ کے بعد اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں اسے اپنے فیصلوں میں کسی جوابدہی کا خطرہ یا خدشہ نہیں ہوتا ۔
جنرل مشرف ہو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کارگل کر گزرتا ہے ۔ فوج کے عالمی تاثر کو بے پناہ نقصان پہنچاتا ہے ۔کارگل کے ناکام تجربہ پر جب جوابدہی کی کوشش ہوتی ہے حکومت پر قابض ہو جاتا ہے ۔
جونیجو اوجڑی کیمپ کے سانحہ پر انکوائری کی کوشش کرتا ہے حکومت ہی لپیٹ دی جاتی ہے ۔
اشرف غنی حکومت مغرب کی ڈارلنگ تھی ۔اس بدقسمت ملک میں پارلیمنٹ طاقتور ہوتی ۔سچ مچ کی جمہوریت ہوتی امریکیوں کو افغان کمبل سے جان چھڑانے اور پاکستان کو پھنسانے کی ہر کوشش ناکام ہو جاتی ۔ اشرف غنی حکومت نہ بھی رہتی کم ازکم طالبعلموں کی حکومت جنگ کی بجائے کسی مفاہمت سے بنتی ۔ مغرب افغانستان کی مدد جاری رکھتا اور پاکستان کی جان بچی رہتی ۔کم عقلوں نے امریکیوں کی مدد کی اور افغان طالبعلموں کی حکومت بنوا دی ۔نتیجہ کیا نکلا ؟ امریکی جنہوں نے پاکستان کی مدد سے خود طالبعلموں کی حکومت بنوائی تھی انہیں کمبل سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑانے کا موقع مل گیا اور پورے مغرب نے یک زبان ہو کر عورتوں کی تعلیم اور انسانی حقوق کے بہانے ہر طرح کی امداد روک دی اور سارا بوجھ پاکستان پر منتقل کر دیا ۔خود ہاتھ جھاڑ کر نکل گئے اور دونوں ملکوں کے درمیان مسلہ کشمیر ایسا تنازعہ چھوڑ گئے ۔
جن لوگوں نے طالبعلموں کی حکومت بنوانے میں کردار ادا کیا وہ ریٹائر ہو گئے اور ہر طرح کی جوابدہی سے بھی صاف بچ گئے ۔
جنرلوں نے امریکیوں کی مدد کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ پنٹا گون اور جی ایچ کیو میں بہت پرانہ محبت کا رشتہ ہے ۔
چند عقلمندوں نے ایک دوسرا ظلم یہ کیا کمزور طالبعلموں کی افغان حکومت کی مدد بھی کر دی یہ بات سمجھ نہیں آتی ۔
جو جنرل فیض حمید کور کمانڈر پشاور کے طور پر کابل میں چائے کی پیالی پر ایک اہم ترین فیصلہ کر آیا وہ صرف جنرل فیض حمید کا فیصلہ تھا دل اور دماغ نہیں مانتا ۔یہ فیصلہ چین آف کمانڈ کا تھا اور سارے اہم لوگ شامل تھے ۔سسٹم میں اگر چیف جنرل باجوہ تجویز پیش کرتا ہے تو چین آف کمانڈ کے اہم مہرے اس فیصلے کی تائید کرتے ہیں اور یہی سچ ہے ۔ اگر جوابدہی کا یا فیصلوں کا کوئی میکنزم ہوتا یا پارلیمنٹ طاقتور ہوتی تو پھر ایسا فیصلہ ہوتا ہی نہ ۔
اشرف غنی نے اچھے اور برے ہزاروں پاکستانی طالبعلموں کو بگرام اور کابل کی پل چرخی جیل میں بند کر رکھا تھا ۔ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل کا نتیجہ یہ نکلا افغان جیلوں سے یہ طالبعلم رہا ہو گئے اور انکی پاکستان میں واپسی کا عمل بھی شروع ہو گیا ۔
افغانستان کے طالبعلموں نے انہیں رہا کر کے پاکستان کے اندر تربیت یافتہ نیا حلیف حاصل کر لیا اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی اہلیت حاصل کر لی ۔
اب بھلے افغانستان پر تجارتی پابندیاں لگائیں یا افغانستان میں پاکستان دشمن دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ کریں افغان جیلوں سے انکی رہائی اور پاکستان واپسی ایسا ناقص فیصلہ گلے پڑ گیا ہے ۔
جب طالبعلموں کی حکومت بنوانی تھی یا انہیں افغان جیلوں سے رہا کرانے کیلئے کابل سرینا ہوٹل میں چائے پینا تھی نوسر باز کی پالتو حکومت تھی ۔جیسے جمہوریت یا خارجہ پالیسی کی پارلیمنٹ کے اختیار سے زیادہ ملک ریاض سے ہیروں سے جڑے جواہرات یا توشہ خانہ کے تحائف بیچنے میں دلچسپی تھی ۔جیسے پنجاب میں بزدار حکومت کے زریعے لوٹ مار کرنے سے فرصت نہیں تھی ۔
فیصلوں جنہوں نے کرنا تھے انہوں نے کئے اور نقصان پاکستان کا ہوا ۔
آج طالبعلموں کی حکومت اشرف غنی حکومت سے زیادہ خطرناک ہے ۔پہلے دہشت گردی میں بھارتی انفراسٹرکچر موجود تھا لیکن اس مرتبہ جو دہشت گردی شروع ہوئی ہے وہ خالصتاً انہی کا کارنامہ ہے جنکی حکومت بنوائی گئی تھی ۔
کاش اس ملک میں فیصلوں کی اونرشپ کا کوئی سسٹم بن جائے تاکہ غلط فیصلوں پر جوابدہی ہو سکے ۔
واپس کریں