دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بلوچ المیہ ۔ اظہر سید ۔
اظہر سید
اظہر سید
بلوچستان کے نامور زعما نے خود پاکستانی وفاق کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا ۔ قاضی فائز عیسیٰ کے والد ہی نہیں نواب اکبر بگٹی بھی متعدد بلوچ قبائل کے ساتھ مل کر پاکستان میں شامل ہونے کی جدوجہد میں شامل تھے اور خان آف قلات کی پاکستان سے الگ اپنی ریاست بنانے کی کوشش کو ناکام بنانے والے اولین کردار تھے ۔بلوچ المیہ کا آغاز نواب نوروز کو قرآن پاک پر حلف دے کر پہاڑوں سے اتارنے سے شروع ہوا ۔ اس بوڑھے سردار کو وعدہ خلافی کر کے گرفتار کیا گیا اور پھر جیل میں ہی نواب صاحب کو المیہ کردار بنا دیا گیا ۔
جنرل ایوب کے دور میں جس المیہ کا آغاز ہوا جنرل مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کو پہاڑوں میں ختم کر کے اس المیہ کو جاری رکھا گیا ۔
بلوچ نوجوانوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے ۔سرکاری ملازمتوں کے حصول اور فوج میں شمولیت بلوچ نوجوانوں کا بھی خواب تھا ۔وہ تعلیم حاصل کرتے اور اپنے ملک میں سرکاری ملازمت کیلئے سفارشیں بھی ڈھونڈتے ۔ جنرل مشرف نے صرف نواب اکبر بگٹی کو مار کر بلوچ عسکریت پسندی کی راہ ہموار نہیں کی لال مسجد آپریشن سے پاکستانی طالبعلموں کو بھی ریاست مخالف بننے اور غیر ملکی ایجنسیوں کو ان میں نفوز کرنے کا موقع فراہم کیا ۔
جنرل مشرف ایک طاقتور ور فوج کا سابق چیف ہونے اور فوج میں بھرپور حمایت کے باوجود پاکستان سے بھاگنے پر مجبور ہوا اور زندگی میں پاکستان واپس نہیں آسکا ۔اس جنرل کے کارگل ایڈونچر نے مسلہ کشمیر کو کس طرح برباد کیا وہ ایک الگ سے المیہ کہانی ہے ۔
نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت سے عسکریت پسندی کا جو جن بوتل سے نکلا اس سے نپٹنے کیلئے لاپتہ کرنے کی پالیسی بنائی گئی جس نے مسلہ حل کرنے کی بجائے عسکریت پسندی کو مزید طاقت دی ہے ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کا اسلام آباد میں دھرنہ اب تین چار روز میں ختم ہو جائے گا کہ ایک خاتون خود کش بمبار کسی یونیورسٹی کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور جلد پتہ چلے گا یہ مبینہ خودکش حملہ آور خاتون بلوچ تھی ۔
شخصیات ختم کر دی جاتی ہیں لیکن انہیں سازش سے ریاست دشمن قرار دے کر راہ سے ہٹایا جائے وہ مرنے کے بعد بھوت بن جاتی ہیں۔ بلوچ مسلہ کبھی بھی طاقت سے حل نہیں ہو گا یہ محبت اور بات چیت سے حل ہو گا ۔
لاپتہ کرنے کی پالیسی ختم کرنا ہو گی ۔محبت سے بات چیت سے معاملات طے کرنے کی خلوص سے کوشش کی جائے تو کوئی پاکستان دشمن قوت بلوچ نوجوانوں کو پراکسی نہیں بنا سکے گی ۔
وفاق پاکستان جتنا کسی پختون ،سندھی اور پنجابی کا ہے اتنا ہی بلوچ نوجوانوں کا بھی ہے ۔ بلوچ نوجوان کی ہر گز یہ قسمت نہیں ہونا چاہئے وہ ویران پہاڑوں ،افغانستان یا ایران میں ٹھکانے بنائیں اور تاریک راہوں میں مر جائیں اور مرنے کے بعد بھوت بن کر دو تین اور نوجوانوں کو انہی تاریک راہوں کا مسافر بنا جائیں ۔
ہمارے پاس مشرقی پاکستان کی المناک کہانی موجود ہے ۔وہاں بھی بندوق ناکام ہو گئی تھی ۔ہمارے سامنے طاقتور سویت یونین کی المیہ کہانی ہے طاقتور جنگی مشین ہونے کے باوجود معیشت کے ہاتھوں مارا گیا ۔
نیشنل پریس کلب کے باہر موجود بلوچ دھرنے کے شرکا کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے ۔انہیں کسی خود کش حملہ آور کی آڑ میں دھرنہ ختم کرنے کی اگر کہیں پر کوئی سوچ موجود ہے اس پر زرا رک کر غور کر لیا جائے ۔اگلے ماہ الیکشن ہیں اور نئی طاقتور حکومت بننے جا رہی ہے ۔بلوچ دھرنہ طاقت سے ختم کرنے کی بجائے نئی حکومت پر چھوڑ دیا جائے ۔
پہلے بھی آصف علی زرداری کی قائم ڈاکٹر عبد المالک کمیٹی جلا وطن بلوچ راہنماؤں سے بات چیت میں "برف پگھلنے" کے قریب پہنچ گئی تھی ۔
بلوچ مسلہ کا حل فوجی حل ہر گز نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے قومی اتفاق رائے سے حل کرنا ہی مسلہ کا حل ہے ۔
واپس کریں