دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شاہد خاقان عباسی کی کہانی بھی ختم
اظہر سید
اظہر سید
ہر سیاستدان موقع کی تلاش میں ہوتا ہے داؤ ضرور لگاتا ہے اور یہ اس کا حق ہے ۔سیاسی جماعتوں میں بیٹھ کر داؤ لگانا ایک جوا ہوتا ہے اور بہت کم کامیابی ملتی ہے ۔ایک الگ سے سیاسی جماعت بنانا اور پھر اقتدار تک پہنچنا ناممکن ہوتا ہے ۔ حالات کے جبر اور دیگر ریاستی قوتوں کی مدد سے سیاسی جماعت بنائی جا سکتی ہے اور کامیابی بھی ممکن ہے لیکن یہ ہما کسی خوش نصیب کے سر پر ہی بیٹھتا ہے ۔
شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنما تھے ،محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے نک چڑے تھے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر داؤ لگایا جو بے ایمانی کی انتہا تھی ۔ریمنڈ ڈیوس کو جنہوں نے رہا کرایا اور دیت ممکن بنائی انہوں نے اپنا بوجھ آصف علی زرداری پر منتقل کرنے کیلئے شاہ محمود قریشی کو استمال کیا ۔
شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دیا اور نکل پڑے آصف علی زرداری کے خلاف بغاوت کا جھنڈا لے کر ۔ سندھ میں اپنے مریدوں کے حلقے میں پہنچ گئے ۔افرادی قوت پیر پگاڑہ اور ذوالفقار مرزا اینڈ کو نے بہم پہنچائی لیکن ناکام ہو گئے ۔ پارٹی میں نقب لگ سکی نہ نئی پارٹی بنا پائے ۔ آخر میں استمال کرنے والوں نے اپنے نئے پراجیکٹ تحریک انصاف میں کھپایا ،دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دلا کر اپنے حلقے کی ہاری ہوئی سیٹ دلائی اور وزارت خارجہ پھر سے عطا ہوئی ۔
سائفر میں فرد جرم کیوں لگی یہ الگ سے معاملہ ہے اور ذوالفقار مرزا نے جو مدد کی تھی وہ بھی آصف علی زرداری کی شفقت سے محروم ہو کر جی ڈی اے کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں افتخار گیلانی بی بی کے بہت نک چڑے تھے ۔ان کے دماغ میں بھی عظمت گھس گئی ۔ مالکوں کے گروپ میں بھی مخبر ہوتے ہیں جو ترقی کیلئے وزیراعظم یا مستقبل کے وزیر اعظم پر داؤ لگاتے ہیں ۔ایسے ہی کسی ترقی کے خواہشمند نے بی بی کو مخبری کر دی افتخار گیلانی کی سیاست ہی ختم ہو گئی ۔
جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جاوید ہاشمی معتوب ہوئے ۔تشدد کا نشانہ بنے اور طویل عرصہ قید میں رہے ۔رہائی کے بعد جاوید ہاشمی سمجھے داؤ لگانے کا وقت آن پہنچا ہے ۔اصل میں جاوید ہاشمی پر بے پناہ تشدد اور ظلم ہوا تھا ۔سیاست کیلئے اتنا کچھ برداشت کرنے کے بعد وہ سمجھے عظیم بن گئے ہیں ۔جیل سے خطوط لکھنا شروع کئے بیٹی میمونہ ہاشمی کو خط لکھتے تھے جو میڈیا کو جاری ہوتا تھا ۔عوام نے قدر نہ کی اور جاوید ہاشمی دل برداشتہ ہو گئے ۔ انہیں اپنی قربانیوں کا مان تھا ۔ پارٹی چھوڑنے کیلئے مالکوں سے رابطہ میں آگئے ۔ میاں نواز شریف نے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو بھیجا پارٹی نہ چھوڑیں لیکن جاوید ہاشمی نوسر باز کو پیارے ہو گئے ۔بعد میں ججوں کے میاں نواز شریف کے خلاف گٹھ جوڑ کا انکشاف کر کے نوسر باز کو بھی چھوڑ دیا اور نواز شریف نے پارٹی میں واپس لے بھی لیا لیکن وہ بات نہ رہی ۔
شاہد خاقان عباسی کو میاں نواز شریف نے وزیراعظم بنایا ۔ مری کی سیٹ ہارنے پر لاہور میں حمزہ شہباز کی سیٹ سے الیکشن لڑوایا اور کامیاب کروایا مریم نواز نے انتخابی مہم چلائی ۔شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ایگریمنٹ پر نیب کیسز بنے ۔ یہ کیسز غلط تھے اور عباسی صاحب کے ساتھ ظلم ہوا تھا ۔مفتاع اسماعیل بھی رگڑے گئے ۔نیب تفتیش میں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ۔جنرل باجوہ نے نوٹس لیا اور پھر عباسی صاحب پارٹی سے دور ہونے لگے ۔
شاہد خاقان عباسی کو مفتاح اسماعیل سے وزارت خزانہ لینا اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا دونوں چیزیں پسند نہیں آئیں ۔وہ اپنی گرفتاری اور قربانی کی وجہ سے وزارت عظمیٰ اپنا استحقاق سمجھ رہے تھے ۔نواز شریف نے انہیں لندن بلایا ،ملاقات کی ،غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی لیکن عباسی صاحب کا دل نہیں جیتا جا سکا ۔
لندن میں دوسری ملاقات شاہد خاقان عباسی کی اپنی درخواست پر ہوئی لیکن بات نہیں بنی ۔
ایک تیسری ملاقات بھی ہوئی ہے لیکن اس مرتبہ میاں نواز شریف نے خود ملنے کی بجائے قاصد بھیجا ہے اور یہ ملاقات بھی ختم اور کہانی بھی ختم ۔
چوہدری نثار نے بھی داؤ لگایا ۔ میاں نواز شریف ججوں اور جنرلوں کے گٹھ جوڑ کا شکار ہوئے تو چوہدری نثار پارٹی پر قابض ہونے کا سوچنے لگے ۔چوہدری نثار کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو فاروق لغاری کے ساتھ ہوا تھا ۔یعنی سیاسی یتیمی ۔ فاروق لغاری بھی مالکوں کی پیچ پر کھیلنے لگے اور محترمہ بینظیر بھٹو سے بے وفائی کر کے اپنی عزت ،ساکھ اور احترام سب کچھ گنوا بیٹھے ۔
واپس کریں