دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خانہ جنگی سے بچنے کا طریقہ ۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
مہذب دنیا میں صحافت ریاست کا چوتھا ستون کہلاتی ہے ۔ ہر مہذب اور جمہوری ریاست میں تحریر و تقریر کی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی سخت قوانین سے جھوٹی خبروں اور پراپیگنڈہ سے عوام کو بچایا جاتا ہے ۔کسی پر لگائے جانے والے الزام کو ثابت نہ کیا جا سکے کیریر ختم ہوتا ہے ساتھ قید و جرمانہ کا سامنا بھی ہوتا ہے ۔
پاکستان ایسی شاندار ریاست میں پہلے دن سے کشمیر کو لے کر سیکورٹی ریاست بنائی گئی اور اس سیکورٹی ریاست پر طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے قبضہ کر لیا ۔اس قبضہ کا نتیجہ ہے آج ستتر سال بعد پاکستان دنیا بھی میں بھکاری ریاست کے طور پر اپنا نام بنا رہا ہے ۔جسٹس منیر سے عمر عطا بندیال تک اسٹیبلشمنٹ نے نظام عدل کو اپنے مقاصد کیلئے ہمیشہ کامیابی کے ساتھ استعمال تو کیا لیکن عوام کا نظام انصاف پر اعتماد بھی ختم کر دیا ۔
عدلیہ اور پارلیمنٹ مفلوج کرنے کے بعد 2018 میں میڈیا پر داؤ لگایا گیا ۔نوسر باز کو ہیرو بنانے ،قومی سیاستدانوں کو غیر متعلق کرنے کیلئے ففتھ جنریشن وار کے نام پر مودی کا یار،مسٹر ٹن پرسنٹ ،فالودے والے کے اکاؤنٹس اور ایان علی کی منی لانڈرنگ کے الزامات سمیت ففتھ جنریشن وار پلوٹون کے پیادوں کو کھلی چھوٹ دی گئی جو چاہیں الزام لگائیں ، عوام کو گمراہ کریں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی بھلے نواز شریف کی ملوں سے را کے جاسوس برآمد کرا دیں ۔
بہت سارے صحافیوں نے مذاحمت کی اور تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ۔احمد نورانی نے واٹس اپ کال پر جے آئی ٹی بنانے کی خبر کی تصدیق کیلئے اعجاز الحسن کو فون کر لیا انہیں لڑکی کے بھائیوں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا ۔ جن صحافیوں نے سر جھکانے سے انکار کیا وہ بلیک لسٹ ہو کر فیلڈ سے باہر نکل گئے ۔
جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمن کو جس دن ثاقب نثار کے انصاف کی وجہ سے جیل جانا پڑا اس دن ریاست کا چوتھا ستون زمیں بوس ہو گیا تھا ۔
جس دور میں ہم رپورٹنگ کرتے تھے احتساب کا سخت ایڈٹیوریل نظام ہوتا تھا ۔خبر کی تردید پر باقاعدہ شواہد مانگے جاتے تھے اور ان شواہد کا تجزیہ ہوتا تھا۔ کسی رپورٹر کیلئے ممکن نہیں تھا وہ جھوٹی پراپیگنڈہ پر مشتمل خبر دے اور بچ بھی جائے ۔ملازمت جاتی تھی اور کیریر ختم ہونے کی تلوار سر پر لٹکتی تھی ۔
نوسر باز کو مسلط کرنے کیلئے جن رپورٹرز کو ہم "دو پیسے کے رپورٹر" کہتے تھے مسلط کیا گیا وہ دیکھتے ہی دیکھتے صحافت کے آسمان پر چمکنے لگے ۔
تمام چینلز پر پرائم ٹائم میں پالتو اینکرز کو بٹھا کر ہر روز پناما ،ایان علی،زرداری کی دوسری شادی ،ڈیل کیلئے نواز شریف اور زرداری کی پانچ ارب ڈالر ،دس ارب ڈالر کی پیشکشوں پر پروگرام کئے جاتے ۔
طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کو پالتو بنا کر جو جن بوتل سے نکالا وہ اب اسد طور،عمران ریاض،صدیق جان اور ان ایسے بہت سارے چیچروں کی شکل میں صحافی بنا بیٹھا ہے ۔
طالبعلموں کا جن بوتل سے نکالا اس نے پورے پاکستان کو خون میں نہلا دیا ۔ ایم کیو ایم کا جن بوتل سے نکالا کراچی میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے ۔
طالبعلموں پر بھی ریاست دشمن قوتوں نے ہاتھ رکھ دیا تھا اور یوٹیوبر پر بھی ڈالر برسائے جاتے ہیں ۔
مالکوں نے غلطی کا احساس کیا ہے تو عدلیہ میں شفاف ججوں کے ساتھ میڈیا میں بھی ڈس انفارمیشن کی روک تھام کیلئے مغربی ممالک سے بھی زیادہ سخت قوانین بنانا ہونگے ۔
ریاست کو بچانا ہے تو مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی بھی ختم کرنا ہو گی ۔
پاکستان کی ترقی مقصود ہے تو سیکورٹی ریاست کی بجائے معاشی ریاست بننے کی طرف سفر کا آغاز کرنا ہو گا ۔
افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ نے ایٹمی اثاثوں کو بلف ثابت کر دیا ہے ۔اب ایٹمی اثاثوں اور میزائل ٹیکنالوجی کو ڈیٹرنٹ بنا کر دفاعی بجٹ میں کمی کی طرف بڑھنا ہو گا ۔
میڈیا کو آزاد اور خودمختار بنانے کیلئے سیاسی مقاصد کیلئے ڈس انفارمیشن پھیلانے والے جعلی صحافیوں کو پولیس مقابلوں میں ختم کر دیا جائے شائد بچ نکلنے کے امکانات پیدا ہو جائیں ۔
اس وقت مڈل کلاس طبقہ تیزی سے ختم ہو کر غریب طبقہ میں شامل ہو رہا ہے ۔مڈل کلاس طبقہ کی قوت خرید ختم ہو جائے تو پیچھے افراتفری اور خانہ جنگی بچتی ہے اور بس ۔
واپس کریں