دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نیا سوشل کنٹریکٹ یا انتشار ۔
اظہر سید
اظہر سید
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ محض چار پانچ درجن بلوچ خواتین اسلام آباد پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بیٹھی ہیں ۔ اس کمزور دھرنہ کے اثرات اس قدر طاقتور ہیں تربت پریس کلب میں چہرے چھپائے درجن بھر افراد بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔یہ دھرنہ اتنا خوفزدہ کر دینے والا ہے پالتو صحافیوں کو لوڈڈ سوال کے ساتھ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے پاس بھیجا جاتا ہے اور پھر ففتھ جنریشن وار کے بچ رہنے والے مجاہدین کی مدد سے صوبائی منافرت کو ہوا دی جاتی ہے ۔ "جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ"مہم کا ہدف پہلے محترمہ بینظیر بھٹو تھیں اور آج یہ نفرت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پر حملہ آور ہے ۔
جاننے والے جانتے ہیں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ آئینی ،قانونی اور اخلاقی طور پر درست ہے ۔اس مطالبہ کے خلاف پنجابی کارڈ کا استعمال پہلے پنجاب سے پیپلز پارٹی کو ختم کر کے چاروں صوبوں کی زنجیر کمزور کر چکا ہے ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خلاف اس کارڈ کا استعمال وفاق کی زنجیر کو مزید کمزور کرے گا ۔
سوشل میڈیا پر پنجاب پرستی پر اترانے سے پہلے جان لیں کوئٹہ میں دھرنہ کے دوران ایک چھ سالہ بلوچ بچی کا جملہ "مجھے پاکستان سے نفرت ہے بلوچ نوجوانوں کے دلوں کی آواز بن رہا ہے ۔
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے ۔یہ وفاق 1971 میں ٹوٹ چکا ہے ۔ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے خلاف بھی فوج پر حملوں اور پنجابیوں کے قتل کا الزام لگایا جاتا ہے اور پھر نتیجہ سب نے دیکھ لیا ۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت کسی چالیس سالہ افغان جنگ نے کسی امریکہ ایسی عالمی طاقت کو "چکر" دے کر کوئی کارپوریٹ مفادات کی جنت نہیں بنائی تھی ۔ اسوقت پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل نہیں تھا اس لئے بھارت کو عالمی طاقتوں نے مغربی پاکستان کا رخ کرنے سے روک دیا تھا ۔
وقت بدل گیا ہے ۔ریاست نادہندہ ہے ۔ففتھ جنریشن وار کا جو تجربہ نواز شریف اور زرداری کو نشانہ بنانے اور نوسر باز کو ہیرو بنانے کیلئے کیا گیا تھا وہ ففتھ جنریشن وار دشمنوں کے ہاتھ لگ گئی ہے ۔
بیرون ملک جو طاقتیں پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو تسلیم نہیں کرتیں وہ تحریک انصاف کے ٹائیگرز کے روپ میں فوج کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ سادہ اور آسان فہم الفاظ میں ہدف فوج نہیں بلکہ ایٹمی صلاحیت ہے ۔
نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دے دیں تو کیا جاں بلب معیشت کو کسی خودکار طریقے سے طاقت کا انجکشن لگ جائے گا ۔نادہندہ عوام کو بجلی کے بلوں میں فوری ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا ۔
ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کی قیمت پھر سے 280 سے 105 پر آجائے گی ؟ اگر ایسا کچھ ممکن نہیں پھر جان لیں وقت ختم ہو چکا ہے ۔ریاست کو چلانے کیلئے چاروں اکائیوں کے درمیان نیا سوشل کنٹریکٹ ہی واحد آپشن ہو گی ۔
ہم سمجھتے ہیں یہ نری حماقت ہے بلوچ دھرنہ کے خلاف صوبائی منافرت بطور ہتھیار استعمال کی جائے ۔جو فیصلے کرتے ہیں وہ عوام میں نہیں جاتے ۔ایک طرف پختون اور بلوچ موقع کے منتظر ہیں دوسری طرف چاروں صوبوں کے عام پاکستانی مہنگائی ،غربت اور بےروزگاری کے ساتھ بڑھتے ہوئے جرائم کا سامنا کر رہے ہیں۔کاش فیصلہ کرنے والے عام لوگوں میں گھل مل کر دیکھیں زمینی حقائق کس قدر خوفناک ہیں ۔بجلی ستر روپیہ یونٹ ہو چکی ہے ۔ غریب لوگوں کیلئے بل کی ادائیگی ممکن ہی نہیں اور ریاست چلانے کیلئے وسائل اکھٹے کرنے کا واحد راستہ ہی مہنگائی اور مذید مہنگائی ہے ۔
الیکشن ہو جائیں تو پہاڑ ایسی سچائیاں سامنے آجائیں گی ۔ نواز شریف کوئی سامری جادو گر نہیں جادو کی چھڑی گھمائے گا معیشت مستحکم ہو جائے گی ۔ پختون اور بلوچ نوجوانوں کے تحفظات دور ہو جائیں گے ۔ کچھ نہیں ہونے والا ۔چھ ماہ گزریں گے ریاست چلانے کیلئے سب کو مل بیٹھنا پڑے گا ۔ جب مل بیٹھیں گے پھر چاروں اکائیوں میں نیا سماجی معاہدہ بھی کرنا پڑے گا ۔ بلوچ اور پختونخوا کے معاملات کی نہیں بھارت اور افغانستان کے معاملات کی ملکیت بھی چھوڑنا پڑے گی ۔ ضد کریں گے تو پھر 1971 میں بھی ضد کی تھی ۔ خدا پاکستان کو مشکلات سے نکالے اور درست فیصلوں سے اس ملک جو ہمارے بچوں کے سر کی چھت ہے گرنے سے بچائے ۔
واپس کریں