دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئندہ الیکشن ،توقعات اور خدشات
اظہر سید
اظہر سید
جنرل باجوہ نے جب پالتو ججوں کے زریعے آئین ری رائٹ کروا کر حمزہ شہباز کی حکومت ختم کروائی صاف ظاہر تھا مالکوں کا ریاست کی ملکیت چھوڑنے کا کوئی پروگرام نہیں ۔ نوسر باز کی اسلام آباد یلغار کو جب پالتو ججوں کے زریعے تحفظ فراہم کیا واضح علامت تھی اپوزیشن کو حکومت تو دی گئی ہے لیکن نوسر باز کا سارا بوجھ بھی ساتھ میں ڈالا گیا ہے ۔پنجاب کے ضمنی الیکشن میں جب نوسر باز کو کامیابی دلائی گئی واضح ثبوت تھا ، مریم نواز کی طوفانی انتخابی مہم کا سودا مالکوں کے بازار میں نہیں بکتا ۔
اگر کوئی سمجھتا ہے مالکان نواز شریف کو آئندہ الیکشن میں کامیابی کے بعد بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کر کے معاشی استحکام حاصل کرنے کی طرف جانے دیں گے تو اسکی سوچ ناقص ہے ۔اگر کوئی خواب دیکھتا ہے نئی پارلیمنٹ آئینی ترامیم کے زریعے مالکوں کے دانت اور ناخن نکال دے گی تو اس خواب کی تعبیر کی راہ میں بہت مذاحمت ہے کہ ن لیگ کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر صرف لاہور کی جیتی ہوئی سیٹیں استحکام پارٹی پر قربان کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا راولپنڈی کی چوہدری نثار اور غلام سرور ایسی سیٹوں کی قربانی کیلئے بھی رضامند کیا گیا ہے ۔ بظاہر چوہدری نثار کے مقابلے میں ن لیگ کا امیدوار ہے لیکن بندوبست پورا کیا گیا ہے ایک سیٹ چوہدری نثار اور دوسری غلام سرور لے جائے ۔کراچی،سرائیکی پٹی ،بلوچستان سمیت قومی اسمبلی کی کم از کم تیس سے پینتیس سیٹیں ایسے امیدواروں کے ہاتھ لگیں گی جو آئینی ترامیم کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں گے ۔مالکان جنرل ایوب سے جنرل باجوہ تک اس قدر مہارت حاصل کر چکے ہیں سیاستدان کیا بیچتے ہیں ۔
پاکستان کو یکم جنوری سے شروع ہونے والے 2024 میں 24 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنا ہیں جبکہ جیب میں جو برآمدات اور ترسیلات زر ہیں وہ درآمدات اور ادائیگیوں سے کم ہیں ۔
انتخابات کے بعد سارا بوجھ نواز شریف کو اٹھانا ہے ۔عوام کو ریلیف دے ،معیشت مستحکم کرے اور آئینی ترامیم کرے ۔ یہ پتھر بہت بھاری ہے ۔سی پیک بحال نہ ہوا اور بھارت کے ساتھ نفرت کی بجائے تجارت کی طرف پیش رفت نہ ہوئی تو جس طرح پنجاب میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ختم کیا گیا مسلم لیگ ن کے شیر کے دانت اور ناخن بھی نکال دئے جائیں گے ۔
مسلہ یہ ہے معیشت ایڈونچر کی اجازت نہیں دے گی ۔ایڈونچر کیا سارے ڈوب جائیں گے ۔ ہم سمجھتے ہیں مستقبل قریب میں مالکان تمام تر تجربے اور مہارت کے باوجود معیشت کے ہاتھوں نہ چاہتے ہوئے بھی پسپائی پر مجبور ہوں گے ۔
حالات کا جبر بہت ظالم ہے ۔طاقتور مالکان حالات کے ہاتھوں اپنے سابق چیف جنرل مشرف کا ٹرائل نہیں روک پائے اور نہ سزا کا عمل روک سکے ۔حالات کا جبر ہے سابق آئی ایس آئی چیف عدالتی کمیشن کے سامنے شوکت صدیقی کیس میں صفائیاں دے رہا ہے ۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے سی پیک کے تحفظ کیلئے چینی اپنی زنبیل لے کر آجائیں گے اور نواز شریف حکومت سنبھالنے کے بعد بہت جلد سی پیک پر جنگی بنیادوں پر کام شروع ہو جائے گا ۔نئے دھرنے اٹھانے ،نئے ججوں کو پالتو بنانے اور نیا نوسر باز سامنے لانے سے پہلے معاشی استحکام اور غیر ملکی سرمایہ کاری مالکوں کو کسی نئے ایڈونچرز سے روک دے گی ۔
اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔ہمیں اب بہتری کی امیدیں ہیں ۔حالات کا جبر آئینی ترامیم کو اسی طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے پر مجبور کرے گا جس طرح ماضی میں سیاستدانوں نے 18ویں آئینی ترامیم منظور کیں ۔جنرل مشرف کی دوسری ایمرجنسی کو پارلیمانی توثیق نہیں دی اور 58 ٹو بھی ایسے ہتھیار سے صدر کو محروم کیا۔
واپس کریں