دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
زرتشت کون تھے ؟
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
مذاہب کی کہانی بھی عجیب ہے۔ ہر نئے آنے والے مذہب نے پہلے سے موجود مذاہب سے خوب استفادہ کرتے ہوئے اپنے نئے تشکیل شدہ مذہب کو برحق جبکہ باقی تمام مذاہب کو باطل قرار دیا ہے۔ مذاہب کی سرقہ بازیاں ان مذاہب کے ماننے والوں پر بروقت آشکارہ نہ ہوسکی اور یوں اوہام اور روایات وقت کے ساتھ ساتھ انکے پختہ عقائد بنتے چلے گئے۔ دوسری جانب مذاہب سے عام لوگوں کی بےخبری، نشر و اشاعت کی سہولیات کی عدم موجودگی، ترسیل پیغامات کے ذرائع کا نہ ہونا اور فاصلاتی دوریوں کے سبب معاشروں کی ایک دوسرے سے رابطوں کے فقدان کا فائدہ مذہبی راہنماوں نے خوب اٹھایا۔ چونکہ مذہبی نمائندوں کا کاروبار ہی عقیدتی تجارت ہوا کرتی تھی لہذا انہوں نے دور دراز واقع مذاہب تک رسائی حاصل کرتے ہوئے انکے عقائد کو مقامی رنگ میں رنگنے کی کامیاب کوششیں کی ۔ مذاہب کی زنجیر میں زرتشت بھی ایک قدیمی مذہب ہے جسکا جنم فارس سلطنت کے سرزمین کے مشرقی حصے میں کم و بیش 2200 قبل از مسیح سے 2400 قبل از مسیح کے درمیان ہوا تھا جسکا ذکر افلاطون نے بھی 400 قبل از مسیح اپنے بعض تحاریر میں کیا ہے۔ رینی گوئنوناب کے مطابق آتش پرستوں کے مذہب کو زرتشت کا نام غلط طور پر دیا گیا ہے کیونکہ زرتشت کسی مذہب کا نہیں بلکہ عہدے اور منصب کا نام تھا۔ "زرتشت" آتش پرستوں کے پیغمبر کے منصب کا نام ہوا کرتا تھا " جو نبوت اور قانون سازی " کے لیے مخصوص تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ زرتشت کوئی ایک شخص نہیں تھا اور متعدد زرتشت تاریخ میں گزرے ہیں جن میں آخری زرتشت کا زمانہ 600 قبل از مسیح کا تھا۔ زرتشت لفظ ایسے ہی مستعمل تھا جیسے مصر میں حکمرانوں کے لیئے فرعون کا صیغہ استعمال ہوتا تھا۔زرتشت مذہب مجوسیت اور آتش پرستوں کے مذہب کے نام سے بھی معروف ہے جو اولین فارسی پیغمبر کے خطاب "زرتشت " سے منسوب ہے۔ زرتشت نے اپنے نبوت کا اعلان تیس سال کی عمر میں کیا تھا اور انکا پہلا اعلان واحد اور یکتا خدا پر ایمان لانے کا تھا جسے "آرموز" کا نام دیا گیا تھا۔واحد خدا کے اعلان کے ساتھ ہی زرتشت مذہب کا آغاز مشرقی ایران سے ہوا اور انتہائی تیزی کے ساتھ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلتا چلا گیا۔

عصر حاضر میں بھی اس مذہب کے ماننے والے موجود ہیں جو یورپ ، افریقہ، ہندوستان اور پاکستان میں قابل ذکر تعداد میں ریائش پزیر ہیں جنہیں فارسی کہا جاتا ہے۔ پشاور میں زرتشتوں کی بہت بڑی آبادی ہوا کرتی تھی جو بعد ازاں پختونخوا کے نامساعد حالات اور مذہبی عدم برداشت کے باعث کراچی اور بیرونی ممالک منتقل ہوگئی۔آج بھی پشاور میں آتش پرستوں کی مختصر آبادی موجود ہے جو پشاور کے اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں اور جو بظاہر کلمہ گو لوگوں کا بھیس اختیار کیئے ہوئے ہیں ۔ نوتھیہ بازار پشاور میں فارسی لوگوں کا کئی کنال پر مشتعمل قبرستان موجود ہے جسے ہڑپ کرنے کے لیئے کئی ایک لینڈ مافیا کے ڈان اور سرکاری ادارے مچل رہے ہیں۔ معروف صحافی اور دانشور شیر دل کاوس جی کی رحلت کے بعد جو فارسی کمیونٹی کا روحانی پیشوا تھا کی جگہ پر جو بزرگ فارسی روحانی پیشوا چنے گئے ہیں ان کا تعلق بھی پشاور سے ہے اور امریکہ میں مقیم ہے۔ اربوں کھربوں روپے کے فارسی قبرستان کو بچانے کے لیئے انہوں نے اپنی صاحبزادی کے ذریعے پاک فوج کے متعلقہ شعبے کو اس قبرستان کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ انکی صاحبزادی پشاور کے ایک معروف ماہر معالج کی زوجہ ہے۔ پاک فوج کو فارسی قبرستان کی سپرداری بعض ناقدین کے مطابق بلی کو دودھ کی چوکیداری حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ آتش پرست ہونے کے ناطے فارسیوں کے گھروں اور معبد خانوں میں آگ کا الاو ہمہ وقت روشن رہتا ہے۔ ان روشن الاوں کی وجہ سے دنیا زرتشتوں کو آتش پرستوں کے نام سے جانتی ہے جبکہ سرزمین عرب کے باسی انہیں مجوسی کہتے ہیں۔ زرتشت عقائد جن اصولوں پر مبنی ہیں اور جسکے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ان میں انبیا کرام کو تسلیم کرنا اور وحی کو صرف منجانب اللہ مختص کرنا شامل ہے۔ زرتشت مذہب کے دوسرے عقائد میں دنیا کے خاتمے پر ایمان رکھنا ، فرشتوں کے وجود کو تسلیم کرنا، یوم قیامت کو حساب کتاب کا دن ماننا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر محکم یقین رکھنا شامل ہے۔ زرتشت عقائد کی تکمیل میں جنت اور دوزخ پر ایمان رکھنا، "دیوا یا دیوار" یعنی جنات کو ماننا، "یسنا" یعنی نماز پڑھنا اور "دس فیصد زکات و خیرات" دینا شامل ہے۔ زرتشت ایمان میں "وہو مانو" جو ایک برگزیدہ فرشتہ ہے پر ایمان لانا اور دنیا کے خاتمہ کے قریب مہدی موعود کی آمد بھی شامل ہے۔ فارسیوں کے مذہبی کتاب "دساتیر" کے مطابق خدا خالق، قوی، داتا، سخی اور عظمت والا ہے۔ زرتشتوں کی مقدس کتابوں میں "دساتیر" اور "آوستا" شامل ہیں۔ کتاب "دساتیر" میں خدائے یکتا کی جو صفات بیان کی گئی ہیں اسکے مطابق خدا کا ایک ہونا، اس کا کوئی ہمسرنہ ہونا، نہ اس کی ابتدا ہے اور نہ ہی انتہا، نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ ہی کوئی بیٹا، نہ کوئی بیوی ہے اور نہ ہی اولاد ہے، وہ بے جسم اور بے شکل ہے، نہ آنکھ اس کا احاطہ کرسکتی ہے، نہ ہی فکری قوت سے اسے تصور میں لایا جاسکتا ہے، وہ ان سب سے بڑھ کر ہے جن کے متعلق ہم سوچ سکتے ہیں، وہ ہم سے زیادہ ہمارے نزدیک ہے، جیسے عقائد شامل ہیں۔ پارسیوں کی مقدس کتابوں "دساتیر" اور "اوستا" میں "دساتیر" کو مزید دو حصوں میں منقسم کیا گیا ہے جسے " خرد" یعنی "چھوٹا دساتیر " اور " کلاں " یعنی "بڑا دساتیر" کہا جاتا ہے۔

اسی طرح " اوستا " بھی دو حصوں پر مشتمل ہے جو " خرد اوستا " اور " کلاں اوستا " کہلاتے ہیں۔ "خرد اور کلاں اوستا" کو علی الترتیب " ژند " یا " ماہا ژند" بھی کہا جاتا ہے۔ پارسیوں کے مذہبی صحیفے دو زبانوں میں پائے جاتے ہیں جس میں ایک "پہلوی زبان" ہے جو فارسی زبان سے مشابہت رکھتی ہے اور دوسری زبان " ژندی " ہے۔ محققین ان مذہبی کتابوں کے بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ بعض محققین "پہلوی دستاویز" کو معتبر سمجھتے ہیں جو فارسی زبان سے قریب تر ہے جبکہ دوسرا گروہ "اوستا " کو زیادہ مستند خیال کرتے ہیں۔ زرتشتوں کے زیادہ تر عبادات کے رسوم ، طریقے ، انداز ، تعداد اور فلسفہ بھی وہی ہے جو زرتشتوں کے بعد مختلف مذاہب میں اپنایا گیا ہے۔زرتشت مذہب میں انبیاء کرام اور ان کو خدا کی طرف سے دی جانے والی وحی یعنی "سروش" ، فرشتے یعنی "یزد"، جنت و دوزخ ، "اہرمن" یعنی شيطان اور دنیا کے خاتمے کے قریب "ساوش یانت" یعنی مہدی موعود کی آمد پر ایمان لانا لازمی ہے۔ "وہومانو" فارسیوں کا برگزیدہ فرشتہ یعنی "جبراٸیل" ہے اور نماز یعنی" رتو" کے لیئے اطلاعی گھنٹی بجانا شرط ہوتی ہے۔ فارسی نماز کی ادائیگی سے پہلے وضو بناتے ہیں جس میں چہرہ اور بازو دھونے کا حکم ہے اور نماز سے پہلے ٹوپی پہننا لازمی ہے۔فارسیوں کا قبلہ آتش کدہ کا وہ کمرا ہوتا ہے جہاں آتشدان میں ہر وقت آگ جلتی رہتی ہے۔

نماز کے دوران "اوستا " کی سورتوں کی تلاوت کیجاتی ہے۔فارسیوں کے ہاں نماز پنجگانہ فرض ہے جسکے اوقات کچھ یوں ہیں۔ "ہاوان گاہ" یعنی فجر طلوع آفتاب سے 36 منٹ قبل سے لیکر دوپہر 39 :12 بجے تک ، "راپتھ وان گاہ" یعنی ظہر 12:40 بجے دوپہر سے لیکر سہہ پہر 3:39 بجے تک ، "اوزرین گاہ" یعنی عصر سہہ پہر 3:40 بجے سے لیکر غروب آفتاب کے 36 منٹ بعد تک ، "ایوستھرن گاہ" یعنی مغرب، غروب آفتاب کے 72 منٹ بعد سے لیکر رات 12:39 بجے تک ،" اوشاہی یا اوشاہن" یعنی عشاء ، رات گئے 12:40 بجے سے لیکر صبح طلوع آفتاب سے 36 منٹ قبل تک ادا کی جاتی ہے۔ پشتون بھی زرتشتوں کے اولین دور میں اس مذہب کے پیروکار تھے اور اس پر سختی سے کاربند رہے ہیں۔ پشتونوں کے تاریخ کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پشتون اس فارسی مذہب کے پیروکار نہیں تھے بلکہ یہ ایک پشتون مذہب تھا جسے فارسیوں نے بھی قبول کیا تھا۔ اس امر سے اس بات کا بخوبی پتہ چلتا ہے کہ پشتون بطور قوم کھبی بھی آج کے معنوں میں جمہوری ، سیکولر، لبرل اور ملحد نہیں رہے ہیں۔ پشتونوں کا یوں مشرف با اسلام ہونا محض دوسرے عوامل اور عربوں کے ساتھ تقریبا ساڑھے تین سو سال جنگوں اور اس میں پے در پے شکست کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اسلام پشتونوں کو زرتشت مذہب کی جدید اور خالص شکل محسوس ہوئی تھی اور تب انہوں نے بغیر کسی تردد کے اسلام کو قبول کیا۔ زرتشت مذہب کے دیگر اخلاقی اوصاف بھی وہی ہیں جو اسلام کی تعلیمات ہیں جیسے کہ سچائی پر قائم رہنا ، جھوٹ نہیں بولنا، صلہ رحمی ، حقوق العباد، پڑوسیوں کا خیال رکھنا اور نماز پنجگانہ قائم رکھنا وہ تمام اسلامی احکامات ہیں جن پر پشتون زرتشت مذہب پر ایمان کے دوران بھی سختی سے کاربند رہے تھے اور یوں دوسرے اقوام کے نسبت اسلام میں پشتونوں کے لیے کوئی اجنبیت نہیں تھی۔

راقم الحروف کا بیشتر محققین کے برعکس یہ رائے ہے کہ زرتشت ایرانی النسل نہیں تھے بلکہ خالص پشتون تھے جو اس دین پر قائم تھے۔ رینی گوئنوناب کے مطابق آخری زرتشت 600 قبل از مسیح باختر میں گزرا ہے اور وہاں سے زرتشت مذہب فارس میں پھیل گیا جسے بعد ازاں رسمی طور پر فارس کے 117 صوبوں میں سرکاری مذہب کے طور پر رائج کیا گیا۔ چونکہ پہلی بار زرتشت مذہب کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اور یوں یہ فارس کی عظیم الشان تہذیب اور سلسلطنت کا حصہ بن گیا جسکے باعث تاریخی غلطی کرتے ہوئے اسے ایرانی مذہب سمجھا گیا۔ فارس کی سلطنت وسیع و عریض علاقے پر پھیلی ہوئی تھی جس میں موجودہ پختونخوا تا جہلم ایران کا اکیسواں صوبہ تھا۔ اس خطے کو خراسان بھی کہا جاتا تھا۔

اگر غور کیا جائے تو فارس سلسلطنت نے زرتشت کو 117 صوبوں کا سرکاری مذہب قرار دیا تھا جسکی وجہ یہ تھی کہ فارس کے پشتون خطے میں یہ پہلے سے ہی نافذالعمل تھا۔ علامہ نیاز فتح پوری اپنے شہرہ آفاق تصنیف " من و یزداں " میں وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ زرتشت پشتون تھے اور قرآن مجید میں جس پیغمبر ذوالقرنین کا ذکر ہوا ہے وہ زرتشتوں کے پشتون بادشاہ اور پیغمبر تھے جو فارس کے روح رواں بھی تھے۔ اگر چہ وسطی ایشیائی زبانیں باہم ایک دوسرے سے استفادہ کر چکی ہیں اور یہی کلیہ عالمی زبانوں پر بھی کسی حد تک صادق آتا ہے لیکن زرتشتوں کے حوالے سے یہ بات بالکل یقینی ہے کہ زرتشت پشتون تھے کیونکہ آج کی پشتو زرتشتی پشتو کی ایک جدید شکل ہے اور قبل از مسیح کے الفاظ کثیر تعداد میں لغوی معنوں میں آج بھی پشتو میں مستعمل ہیں۔ زرتشتوں کے مذہبی محکومیت اور ترک زرتشتی کے طویل عرصے بعد جب وہی زرتشتی عقائد اور عبادات اسلام کی اکمل شکل میں پشتونوں تک بطور دعوت پہنچے تو دیگر تمام حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے گویا یہ انکے لیئے احیائے مذہب کی بات تھی اور اسی لیئے پشتون جوق در جوق قبیلہ در قبیلہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ دیگر کئی تاریخی حقائق بھی اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ پشتونوں کا اپنا اور واحد مذہب زرتشتی تھا اور دیگر متعدد مذاہب انہوں نے وقتا فوقتا ضرورتوں کے تحت اپنائے تھے۔ پشتونوں میں آج بھی غیر مسلمان اس لیئے نایاب ہیں کہ انہیں اسلام کی صورت میں اپنے ابا و اجداد کا دین خالص ترین شکل میں ملا ہے۔
واپس کریں