
میں نے کئی بار پاکستان میں عسکری سوچ کے غلبے کی وجوہات پر لکھا ہے۔ لیکن ہندوستان تو بظاہر ایک جمہوری اور سیکولر ریاست یے لیکن پھر وہاں پر اس قدر نفرت کا بازار کیوں گرم ہے؟ بھارتی میڈیا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ مسلسل نفرتوں کو ہوا دے رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ سوچ اب ہندوستان کی سیاسی اور سماجی پرتوں کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ مضمون ہندوستان کے اندر بڑھتے ہوئے تعصب اور شدت پسندی کے رجحان کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔
اس ایشو کو سمجھنے کے لئے تین پہلو اہم ہیں۔ پہلا ہندوستان کے اندر بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی جسے "ہندوتوا" کہا جاتا ہے۔ یہ سوچ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں کوئی نمایاں حمایت حاصل نہیں کرسکی تھی۔ اس کے بانی سوارکر (Savarkar) سمجھے جاتے ہیں جو مذہب کے نام پر ریاست بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے شدید مخالف تھے۔ اسی تحریک کے حمایتی Nathuram Godse نے گاندھی کا قتل کیا کیونکہ ان پر پاکستان کی طرف نرم رویہ رکھنے کا الزام تھا۔ اس کے بعد یہ تحریک کئی دہائیوں تک سیاسی منظر نامے سے غائب رہی اور RSS) Rashtriya Swayamsevak Sangh) کے تربیتی سکولوں تک محدود ہوگئی۔ 1975 میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے بعد کانگریس کی طاقت کم ہونا شروع ہوئی اور جنتا پارٹی کے نام سے پارٹی سامنے آئی جس میں ہندوتوا کے کئی رہنمائوں نے شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصے بعد 1980 میں یہ پارٹی بھارتی جنتا پارٹی میں تبدیل ہوگئی جو آج برسراقتدار ہے۔
بھارتیا جنتا پارٹی کا نظریاتی کارکن RSS سے آتا یے. 1984 کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف دو نشت حاصل کی تھیں۔ لیکن 1992 میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو پارٹی کی مقبولیت میں شید اضافہ ہوا کیونکہ اس تحریک کی سربراہی Bjp کے لیڈر ایل کے اڈوانی نے کی تھی۔ یہ ایک انوکھا واقعہ تھا جس میں پورے ملک میں ایک پارٹی نے ایک مذہبی کمیونٹی کے خلاف یاترا کی اور عام لوگوں کو ایک عبادت گاہ پر حملے کے لئے تیار کیا گیا۔ مارکسی دانشور اعجاز احمد نے اسے ہندوستان کی جمہوری قدروں کے خلاف ایک رد انقلاب قرار دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ہندو مسلم فسادات ہر الیکشن میں ایک روایت بن گئے جس کا بے جے پی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 2002 میں اس وقت گجرات کے چیف منسٹر نریندر مودی اور ان کے ساتھی امت شاہ نے کمال مہارت کے ساتھ ان فسادات کا استعمال کیا۔ 1000 سے زائد مسلمانوں کے قتل عام کے بعد مودی نے گجرات کا الیکشن جیت کر ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے ماہرین کو حیران کردیا۔ اس قتل عام کی وجہ سے مودی پر امریکہ میں داخلے پر پابندی تھی۔ آج مودی ہندوستان کے وزیر اعظم اور امت شاہ ہوم منسٹر ہیں اور مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت ان کی سیاست کا اہم جز ہے۔ کشمیر کے اندر بڑھتا ہوا جبر بھی بی جے پی کی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔
ایک طرف بھارت میں نفرت کی سیاست بڑھ رہی تھی تو دوسری طرف امریکہ خطے میں چین کے مقابلے میں ایک متبادل تلاش کرہا تھا۔ 1947 سے 1991 کی دہائی تک ہندوستان کی خارجہ پالیسی بہت حد تک آزاد تھی۔ لیکن 1991 میں معاشی اصلاحات اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ سے ہندوستان کے تعلقات بڑھ گئے جو 2008 میں نیوکلیئر ڈیل کے ساتھ مزید پختہ ہوگئے۔ حال ہی میں ٹرمپ کی طرف سے ہندوستان کے لئے ہتھیاروں کی سپلائی کا اعلان اور پھر JD Vance کا دورہ جس میں تجارتی امور پر ہم آہنگی نے مزید ثابت کیا کہ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں علاقائی counter-weight بنانا چاہتا ہے۔ علاقے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی خواہش کی وجہ سے بھارت کے تمام ہمسائے ممالک سے کشیدہ تعلقات ہیں۔ بنگلہ دیش سے لے کر نیپال اور چین سے لے کر پاکستان اور سری لنکا، سب ہی کے تعلقات ہندوستان سے کشیدگی کا شکار ہیں۔ حتی کہ کینیڈا سے بھی بھارتی تعلقات خراب ہوگئے جب بھارتی انٹیلیجنس نے کینیڈا میں ایک سکھ کینیڈین شہری کو قتل کروایا جس پر کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے ہندوستان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ کوئی اور ملک یہ حرکت کرتا تو شدید پابندیاں لگ جاتی لیکن امریکی پشت پناہی کی وجہ سے بھارت بچ گیا۔
آخر میں اس سب جنگی جنون اور ہندو انتہا پسندی کا ایک ہدف اس معاشی نظام سے توجہ ہٹانا ہے جس میں ہندوستان آج دنیا کا سب سے زیادہ معاشی طور پر نا ہموار سماج بن گیا یے۔ بھارت میں 10 فیصد امیر طبقہ 80 فیصد دولت پر قابض ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھارت اب بھی بہت پسماندہ ہے جبکہ امبانی جیسا کھرب پتی دنیا کے امیرترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سب بڑی کمپنیاں بھارتی میڈیا کو بھی کنٹرول کرتی ہیں اور مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایتی بھی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ جب تک مذہبی لڑائی رہے گی، لوگ اسی میں الجھے رہیں گے اور طبقاتی سوال ان کے شعور میں پیچھے جاتا جائے گا۔
ان حالات کو دیکھ کر یہ واضح ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کی طرح ہندوستان کے حکمران طبقے نے بھی اپنے مستقبل کو نفرت اور جنگی جنون کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ جمہوریت یا سیکولرازم کے لبادے میں ایک شدید استحصالی اور تنگ نطر حکمران طبقہ ہندوستان مین اس وقت برسراقتدار ہے۔ اندرونی طور پر جب تک بھارت ہندو انتہا پسندی اور کارپوریٹ سیکٹر کی گرفت میں رہے گا اور بیرونی طور پر امریکہ کی ایما پر خطے میں اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرے گا، جنگ کے خدشات ہمارے خطے پر منڈلانے رہیں گے۔ دوسری جانب پاکستانی حکمران طبقات بھی اسی قسم کی پالیسی پر چلتے ہوئے مسلسل خطے میں لڑائی جھگڑے کو فروغ دیتے آئے ہیں۔ مذہبی جنونیت، استحصالی کمپنیوں، اور امریکی عزائم کے خلاف لڑائی 1947 کی طرح آج بھی بر صغیر کے اندر ترقی پسندوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اسی لڑائی کے نتیجے میں یہ بات طے ہوگی کہ کیا ہمارا خطہ مسلسل جنگ، نفرت اور بھوک و افلاس میں مبتلا رہے گا یا کئی صدیوں بعد ایک بار پھر امن، ترقی اور خوشحالی کا گہوارا بنے گا۔
واپس کریں