محمد ریاض ایڈووکیٹ
اللہ کریم کی شان اور عظمت کیا ہے، اسکا جواب خود خالق و مالک اللہ کریم نے سورۃ القمان کی آیت نمبر 27 میں واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ''اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو اس کے پیچھے سات سمندر اور اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی بیشک اللہ عزت و حکمت والا ہے''۔ یقینی طور کائنات کی ہر شے اللہ کریم کی کبریائی کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اور دنیا کا خالق و مالک اپنے پیارے محبوب خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں کیا ہی خوبصورت طریقہ سے سورۃ الشرح کی آیت نمبر 4 میں واضح طور پر بتاتا ہے کہ ''اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا''۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے بہتر ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے بہتر دعا الحمدللہ ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب میں اللہ کریم کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و تعریف کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حمد و ثنا و نعت کے لئے کسی خاص وقت، خاص مہینہ، خاص مقام یا خاص افراد کی ضرورت ہے؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ حمد و ثنا، نعت خوانی اور درود و سلام کسی خاص مقام، وقت، افراد کے اکٹھ کے محتاج نہیں ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں گھروں، مساجد، مدارس میں ذکر و اذکار کی محافل کا انعقاد ہمیشہ ہی سے کیا جاتا رہا ہے اور ان شاء اللہ یہ بابرکت محافل ہمیشہ قائم و دائم رہیں گی۔ مگر گذشتہ کچھ عرصہ سے ذکر و اذکار و نعت خوانی کی محافل کابڑے پیمانے پر انعقاد دیکھنے کو مل رہا ہے جس کے لئے ہفتہ، دس، پندرہ یا مہینہ پہلے ہی گلی، محلے کی دیواروں، اور شہر کے چوکوں چوراہوں پر 20 یا 40 فٹ کے پینا فلیکس لگا کر باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے۔ جس میں ملک کے نامی گرامی نعت خواہوں، قوالوں اورخطیبوں کی قد آور تصاویر شائع کی جاتی ہیں۔ ان اشتہارات کو دیکھنے پر معلوم پڑتا ہے کہ تصاویر کے ساتھ عاشقِ رسول ایسے القابات لکھوانے والے اکثر نعت خواں، قوال داڑھی منڈے ہوتے ہیں۔ محفل میں حاضرین کی شرکت کو یقینی اور بھرپور بنانے کے لئے لاکھوں روپے کے قیمتی انعامات اور عمرے کے ٹکٹ قرعہ اندازی کے اعلانات کئے جاتے ہیں۔ نامی گرامی نعت خواں و قوال حضرات کا کسی محفل میں شامل ہونے کا ریٹ کیا ہے؟ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ شنید ہے یہ ریٹس لاکھوں روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرکے سٹیج کی تیاری و دیگر انتظامات کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ مدعو کئے گئے گدی نشینوں کے سفری اخراجات پھر واپسی پر نذرانے۔ پُرلطف لنگر کا انتظام۔ نعت خواہوں، قوالوں اور شعلہ بیان خطیبوں کے اوپر لاکھوں روپے کے نوٹوں کی گڈیاں نچھاور کرنا۔ بندہ ناچیز کا تجربہ رہا ہے کہ کئی محافل عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتی ہیںاور تہجد کے وقت اختتام پذیر ہورہی ہوتی ہیں۔ اور لاوڈ اسپیکر کا بے دریغ استعمال کرکے سارا دن محنت مزدوری و کام کاج کرکے سوئے ہوئے افراد کی نیندیں خراب کی جارہی ہوتی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عشاء کی نماز میں نمازی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جبکہ اکثر افراد فجر کی نمازادا کئے بغیر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اب آپ خود حساب لگا لیں کہ فرض نماز چھوڑنے کا نقصان اور ذکر کی محفل میں بیٹھنے کا ثواب کیا برابر ہوسکتے ہیں؟
بسا اوقات یہ نعت خواں اور قوال ایسے ایسے شرکیہ کلام پڑھتے ہیں ان پر بندہ ناچیز مزید بات نہیں کرسکتا ہے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ مفتی منیب الرحمن، مفتی محمد اکمل مدنی و دیگر ایسے بڑے بڑے جید علماء کی جانب سے ان نعت خواہوں و قوالوں کی سرزنش میں دیئے گئے انٹرویوز اور بیانات ہی کافی ہیں جو یوٹیوب پر باآسانی دستیاب ہیں۔ اوپر سے یہ نام نہاد عاشق ایسے بے لگام ہوچکے ہیں کہ جید علماء کی واعظ پر شرمندہ ہونے کی بجائے ہٹ دھرمی سے جید علماء کرام کا مذاق اُڑاتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ان پیشہ ور افراد کے عشق کا اندازہ لگانا ہوتو محافل منعقد کرنے والے انکو بلا معاوضہ محفل میں بلاکردیکھنے کی جرات کرکے دیکھ لیں۔
ایک طرف نعت خواہوں، قوالوں اور خطیبوں پر لاکھوں روپے کے اخراجات۔ دوسری طرف مساجد کے پیش امام و خطیب حضرات جنکی ماہانہ تنخواہ پاکستان میں رائج الوقت مزدور کی کم از کم تنخواہ 37ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ جس مسجد یا علاقے میں منعقدہ محفل میں لاکھوں روپیہ ہوا میں اُڑایا جارہا ہوتا ہے، عین اُسی علاقے کی مسجد کے امام صاحب جمعہ کی نماز کے وقت نمازیوں سے بجلی کے بل ادا کرنے و دیگر اخراجات پوراکرنے کے لئے چندے مانگ رہے ہوتے ہیں۔
کاش محافل پر خرچ ہونے والی رقوم مساجد، مدارس اور مساجد کے خطیب اور امام صاحبان کی فلاح و بنیادی ضروریات پر خرچ کی جائیں جو یقینا صدقہ جاریہ بنے گا۔ کاش نوٹوں کی گڈیاں نچھاور کرنے والے یہی رقوم اپنے گلی محلے اور رشتہ داروں میں موجود مساکین، غرباء، بیواؤں اور یتیموں پر خرچ کریں تو دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ثواب کی نیت سے محافل پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے ہم فضول خرچی کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟ اللہ کریم مجھ سمیت ہر مسلمان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین
واپس کریں